سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(7) وضو کے احکام

  • 23682
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5236

سوال

(7) وضو کے احکام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھولو۔"[1]

اس آیت کریمہ میں نماز کے لیے وضو کو فرض قراردیا گیا ہے اور ان اعضاء کا تذکرہ ہے جن کا وضو میں دھو نا یا مسح کرنا فرض ہے نیز آیت میں اعضائے وضو کے مقامات کی حد بندی کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول وعمل سے وضو کا مکمل طریقہ وضاحت سے بیان کر دیا ہے:

وضو کی شرائط فرائض اور سنن ہیں۔ شرائط وفرائض کی حتی الامکان ادائیگی صحت وضو کے لیے لازمی ہے۔ سنن سے وضو کی تکمیل ہوتی ہے اجر زیادہ ملتا ہے البتہ کسی سنت کے ترک کر دینے سے صحت وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔[2]

اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

شرائط وضو

صحت وضو کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:اسلام عقل تمیز اور نیت بنا بریں کافر مجنون اور کم سن بچے (جنھیں شعور نہ ہو )کا وضو صحیح نہ ہو گا اسی طرح جس وضو میں"نیت" شامل نہ ہو وہ وضو بھی صحیح نہیں ہوتا مثلاً:کسی شخص نے وضو کے اعضاء کو پانی سےٹھنڈک حاصل کرنے کی نیت سے دھویا یا اس کا مقصد ان اعضاء پر لگی ہوئی نجاست یا میل کچیل دور کرنا تھا تو ایسے شخص کا یہ عمل "وضو"قرارنہ پائے گا۔

وضو کے پانی کا پاک ہونا شرط ہے ناپاک پانی سے وضو نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ صحت وضو کے لیے پانی کا مباح ہونا بھی شرط ہے اگر کسی نے ایسے پانی سے وضو کیا جو کسی سے چھین کر حاصل کیا گیا یا کسی اور غیر شرعی طور سے حاصل کیا گیا تو ایسے شخص کا وضو درست اور صحیح نہ ہو گا۔

وضو سے پہلے (اگر قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو تو) استنجاء کرنا یا مٹی کا استعمال بھی صحت وضو کے لیے ایک شرط ہے جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔

وضو کی صحت اور درست ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہر اس چیز کو اتاردیا جائے جس کی وجہ سے عضو کی جلد تک پانی نہ پہنچ سکتا ہو۔ وضو کرنے کے لیے ضروری ہےکہ اعضاء پر لگی ہوئی مٹی ،آٹا موم اور جما ہوا میل کچیل یا تہہ دار رنگ (ناخن پالش وغیرہ) اتار دے تاکہ وضو کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے عضو کی جلد تک پہنچ جائے۔

وضو کے فرائض

وضو کے فرائض (ارکان )چھ ہیں جو درج ذیل ہیں:

مکمل چہرہ دھونا:اس میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے ۔ جس شخص نے چہرہ دھولیا لیکن کلی نہ کی ناک میں پانی نہ ڈالا یا ان دونوں میں سے ایک کام چھوڑ دیا تو اس کا وضو درست اور صحیح نہ ہو گا کیونکہ منہ اور ناک دونوں چہرے کا حصہ ہیں جنھیں دھونے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم﴾

"سو اپنے چہرے دھوؤ۔"[3]

جس شخص نے چہرے کا کوئی حصہ بھی(دھوتے وقت ) چھوڑدیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔

علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  وضو کرتے وقت کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے تھے۔

ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ﴾

اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو۔[4]

ایک روایت میں اس کی صراحت یوں ہے۔

"كَانَ اَلنَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم إِذَا تَوَضَّأَ أَدَارَ اَلْمَاءَ عَلَى مُرْفَقَيْهِ" 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وضو کرتے تو اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے ۔"[5]

ایک دوسری روایت میں ہے۔

"... ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ ، ثُمَّ يَدَهُ الْيُسْرَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ"

"پھر انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ دھویا حتیٰ کہ کہنی سے اوپر ڈالا کچھ حصہ دھویا اور بایاں ہاتھ دھویا حتیٰ کہ کہنی سے اوپر والا کچھ حصہ دھویا۔"[6]

یہ روایتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ کہنیاں دھوئے جانے والے حصے میں شامل ہیں۔

سارے سر کا مسح کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

﴿وَامسَحوا بِرُءوسِكُم﴾

"اور اپنے سر کا مسح کرو۔"[7]

مکمل سر میں کان بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"الأذنان من الرأس"

"دونوں کان سر کا حصہ ہیں۔"[8]

بنا بریں سر کے بعض حصے کا مسح کرنا کافی نہیں۔

پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا۔ ارشاد ربانی ہے۔

﴿وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ﴾

اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھولو۔"[9]

آیت میں"الی" کا معنی " مع"ہے۔ ان کی شہادت اس احادیث سے ملتی ہے جن میں وضو کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ یعنی یہ روایت اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ"ٹخنے "اس حصے میں شامل ہیں جس کے دھونے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ترتیب ۔وضو کرنے والا شخص پہلے چہرہ دھوئے پھر دونوں ہاتھ پھر سر کا مسح کرے اور آخر میں پاؤں دھوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت وضو"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اوراپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھولو۔"میں وضو کو ترتیب سے بیان کیا ہے۔نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی قرآنی ترتیب کے مطابق وضو کیا ۔ اور فرمایا:

"هَذَا وُضُوءُ مَنْ لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَلاةً إِلا بِهِ"

"یہ اس شخص کا وضو ہے جس کے بغیر اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔"[10]

 اعضاء کا پے درپے دھونا۔ وضو کرنے والا "اعضائے وضو" کو پے درپے لگاتار دھوئے ایک عضو کو دھو کر کچھ وقفے کے بعد دوسرا عضو دھونا درست اور صحیح نہیں لہٰذا پوری کوشش کی جائے کہ وضو کے اعضاء یکے بعد دیگر ے تسلسل کے ساتھ دھوئے جائیں۔

یہ وضو کے وہ فرائض ہیں جن کی ادائیگی اس طریقہ کے مطابق کی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے( اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول و عمل سے واضح کیا ہے)

ابتدائے وضو میں تسمیہ (بسم اللہ پڑھنے )کے وجوب یا عدم وجوب میں علمائے کرام میں اختلاف ہے البتہ سب کے نزدیک تسمیہ مشروع ہے جس کا ترک درست نہیں تسمیہ کے کلمات" بسم اللہ" ہیں اور اگر کسی نے الرحمٰن الرحیم کے الفاظ بھی بڑھائے تو کوئی حرج نہیں۔(واللہ اعلم )[11]

آیت وضو میں چار اعضاء کے دھونے کا جوحکم ہے اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بدن کے یہ اعضاء گناہ کے ارتکاب میں اکثر استعمال ہوتے ہیں وضو سے ظاہری صفائی و طہارت کے ساتھ ساتھ ان اعضاء کی باطنی صفائی بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے کہ بے شک مسلمان جب (وضو کرتے وقت ) کسی عضو کو دھوتا ہے تو اس عضو کی ہر خطا(جس کا اس نے ارتکاب کیا ہو)وضو کے پانی سے یا اس کے آخری قطروں سے معاف ہو جاتی ہے۔[12]

ان اعضاء کو دھونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے"کلمات شہادت"کے ذریعے سے تجدید ایمان کی راہنمائی فرمائی ہے تاکہ ظاہر اور باطنی طہارت دونوں یکجا ہو جائیں۔ ظاہری طہارت کا حصول اس وقت ہو گا جب اعضاء کو آیت وضو کے مطابق دھولیا جائے گا اور باطنی طہارت تب حاصل ہو گی جب وہ کلمہ شہادت پڑھے گا جو انسان کو شرک و کفر سے پاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت وضو کے آخر میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے:

﴿ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٦﴾... سورة المائدة

"اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمھیں پاک کرنے کا اور تمھیں اپنی بھر پور نعمت دینے کا ہے تاکہ شکر ادا کرتے رہو۔"[13]

اللہ تعالیٰ نے تمھیں وضو کا حکم دیا تاکہ وہ تمھاری خطاؤں کو معاف کرے اور اپنے فضل وانعام کا اتمام کردے۔

"آیت وضو"کے ابتدائی حصے پر غور فرمائیے ! اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو کس طرح خوبصورت انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان والے ہی اللہ تعالیٰ کے احکام سنتے اور بجا لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ"

"وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے۔"[14] 

وضو کے مستحبات

وضو کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا جا چکا ہے اس کے علاوہ باقی کام "مستحب " ہیں جن کی حیثیت ودرجہ یہ ہے کہ وہ کام کرے گا تو اجر پائے گا اور اگر چھوڑدے گا تو گناہ گار نہیں یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے ان اعمال کو"سنن الوضوء " کانام دیا ہے۔ اور وہ یہ ہیں۔

مسواک کرنا:مسواک کی اہمیت فضیلت اور کیفیت پر بحث گزر چکی ہے۔ یاد رکھیے مسواک کا مقام و محل کلی کرنے کے وقت ہے تاکہ مسواک اورکلی دونوں سے منہ اچھی طرح صاف ہو جائے اور نمازی عبادت ،تلاوت اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کے لیے تیار ہو جائے۔

چہرہ دھونے سے پہلے ابتدائے وضو میں ہاتھوں کوتین مرتبہ دھونا بھی مستحب ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچانے کا آلہ دونوں ہاتھ ہی ہیں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہےکہ مکمل وضو سے پہلے ان کو اچھی طرح دھو کر صاف کر لیا جائے۔

کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا عمل چہرہ دھونے سے پہلے انجام دینا وضو کے مستحبات میں سے ہے کیونکہ احادیث میں ان کا ذکر موجود ہے۔ اگر انسان روزے کی حالت میں نہ ہو تو ان دونوں میں مبالغے سے کام لے۔ یعنی  کلی کرتے وقت سارے منہ میں پانی کو خوب پھرائے اور گھمائےاور ناک میں پانی ڈالتے وقت سانس کے ذریعے ناک کے بلند حصے تک پانی کو کھینچے۔[15]

داڑھی گھنی ہونے کی صورت میں اس کا خلال کرنا مسنون ہے۔[16]

اسی طرح ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال بھی مستحب ہے۔

دائیں جانب سے ابتدا کرنا: ہاتھوں اور پاؤں کو دھوتے وقت بائیں اعضاء کی بجائے دائیں اعضاء پہلے دھوئے جائیں۔

چہرہ دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کو ایک بار سے زیادہ یعنی دود،دویا تین تین بار دھونا بھی مستحب ہے۔

میرے بھائی! یہ وضو کی شرائط ،فرائض اور سنن ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ انھیں سیکھ لیں اور وضو کرتے وقت انھیں ملحوظ رکھیں تاکہ آپ کا وضو احکام شرعیہ کے مطابق ہو اور اجر کے حصول کا ذریعہ ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو علم نافع اور عمل صالح نصیب فرمائے۔(آمین )


[1]۔المائدہ:5۔6۔

[2]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو میں جو عمل کیا ہے وہ وضو کا حصہ ہے جس کے ترک کر دینے سے سنت نبوی کے مطابق وضو نہ ہوگا۔(صارم)

[3]۔المائدہ:5۔6۔

[4]۔المائد:5۔6۔

[5]۔السنن الکبری للبیہقی 1/56۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للا لبانی حدیث 2067۔

[6]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب استحباب اطالۃ العرۃ والتحیل فی الوضوء حدیث 246۔

[7]۔۔المائد:5۔6۔

[8]۔سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب الاذنان من الراس حدیث 4،43۔445۔وسنن الدارقطنی1/96۔98۔

[9]۔المائد:5۔6۔

[10]۔(ضعیف)سنن ابن ماجہ الطہارۃ سننھا باب ماجاء فی الوضوء مرۃ مرتین وثلاثاً حدیث:419والسنن الکبری للبیہقی1/80۔

[11]۔بسم اللہ پر اکتفا کرنا ہی راجح ہے۔(ع۔د)

[12]۔ھذا معنی الحدیث ولا صل عند مسلم وغیرہ صحیح مسلم الطہارۃ باب خروج الخطا یا مع ماء الوضوء حدیث:244۔والموطا للامام مالک: 1/32۔حدیث :31۔

[13]۔سنن ابن ماجہ الطہارۃ سننھا باب المحافظ علی الوضو ء حدیث 277۔279۔

[14]۔المائدہ:5۔6

[15]۔صحت وضو کے لیے ناک جھاڑنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ عمل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضو کا ایک حصہ تھا۔(صارم)

[16]۔داڑھی کے خلال کا طریقہ یہ ہے کہ چلو میں پانی لے کر داڑھی کے نیچے اندر داخل کرے۔اور ہاتھ کی انگلیوں سے داڑھی کا خلال کر لے۔(صارم)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 41

تبصرے