سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(6) مسواک کرنا

  • 23681
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2085

سوال

(6) مسواک کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسواک کرنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی درخت کی شاخ کے ساتھ دانتوں اور مسوڑھوں پر جما ہوا میل کچیل اتارنا اور بدبو کو ختم کرنا خصائل فطرت میں شامل ہے۔

حدیث میں ہے کہ مسواک کرنا انبیائے کرام کی سنت رہی ہے۔[1]سب سے پہلے ابراہیم  علیہ السلام  نے مسواک استعمال کی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:"مسواک منہ کو صاف کرنے اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔"مسواک کی فضیلت واہمیت کے بارے میں سوکے قریب احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسواک کرنا سنت مؤکدہ ہے اور بہت سے فوائد کا حامل عمل ہے ان میں سب سے بڑا اور اہم فائدہ منہ کی صفائی ہے اور رب تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔

مسواک (مناسب یہ ہے کہ) قدرے نرم شاخ سے حاصل کی جائے جو پیلو یا زیتوں کی ہو یا کھجور کے گچھے کی شاخ ہو یا کوئی ایسی شاخ ہو جو نہ بہت زیادہ نرم ہو اور نہ اس قدر سخت ہو کہ منہ کو زخمی کردے۔

مسواک کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ روزے دار شخص دن میں کسی بھی وقت مسواک کر سکتا ہے۔ وضو کے وقت مسواک کرنے کی زیادہ تاکید ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل وضوء"

"میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ ہر وضو کے ساتھ مسواک کیا کریں۔"[2]

اس حدیث میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ مسواک کلی کرنے کے وقت استعمال کی جائے کیونکہ اس سے منہ کی خوب صفائی ہو جاتی ہے۔

فرض یا نفل نماز کے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے کیونکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے وقت کامل طور پر طہارت و نظافت حاصل کریں تاکہ عبادت کے شرف و عظمت کا خوب اظہار ہو۔

رات یا دن کے کسی حصے میں نیند سے بیدار ہوتے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے:

"كَانَ النَّبِيُّ -صلى الله عليه وسلم-إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب رات کو اٹھتے تو مسواک کیا کرتے تھے۔"[3]

اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند کے دوران معدہ کے بخارات اٹھنے کی وجہ سے منہ کی بوتبدیل ہو کر(ناپسندیدہ)ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں مسواک کے استعمال سے مکروہ اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔ اور منہ صاف ستھرا ہو جاتا ہے۔

اگر کسی چیز کے کھانے پینے سے منہ کی بوصحیح نہ رہے تو اس وقت بھی مسواک استعمال کی جائے۔ قرآن مجید کی تلاوت کا ارادہ ہوتو پہلے مسواک کر لینی چاہیے تاکہ کلام اللہ کی تلاوت کے وقت منہ پاک صاف ہو۔

مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک بائیں ہاتھ میں پکڑی جائے۔[4]اور اسے دانتوں اور مسوڑھوں پر اس طرح پھیرا جائے کہ منہ کی دائیں جانب سے شروع کرے اور مسواک کرتا ہوا بائیں جانب لے جائے۔

ہمارے دین حنیف کی امتیازی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ فطرتی خصائل کا حامل دین ہے جیسا کہ مذکورہ روایات سے واضح ہو چکا ہے انھیں فطری صفات اس لیے کہا جاتا ہے۔ کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں پھر اس نے اپنے بندوں کو ان پر عمل کرنے کی رغبت دلائی ہے بلکہ ان کے لیے پسند کیا ہے تاکہ اس کے بندے صفات کاملہ کے حامل ہوں ان کی وضع قطع اچھی ہو ۔ درحقیقت یہ سابقہ انبیائے کرام کی ایسی سنتیں رہی ہیں جن پر پہلی شریعتوں کا اتفاق تھا مسواک کے علاوہ دیگر خصائل فطرت قدرے اختصار سے یہاں بیان کے جاتے ہیں۔

1۔زیر ناف بال اتارنا:ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرمگاہ کے ارد گرد بالوں کو استرے سے یا کسی اور چیز پاؤڈر وغیرہ سے اتارلے تاکہ خوبصورتی و نظافت حاصل ہو۔

2۔ختنہ کرنا:حثفہ پر موجود جھلی کا کاٹنا ختنہ ہے۔ یہ عمل خصائل فطرت میں شامل ہے۔ اس کے لیے مناسب وقت بچپن کا زمانہ ہے کیونکہ اس وقت زخم جلدمندمل ہو جاتا ہے اور بچہ کا مل احوال کے ساتھ بڑھتا اور جو ان ہوتا ہے۔

ختنہ کروانے میں بہت سی حکمتیں اور فوائد مضمر ہیں ان میں سے اہم فائدہ یہ ہے کہ ختنے کی وجہ سے جھلی کا اندورنی حصہ ظاہر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے میل کچیل سے صاف رہتا ہے:

3۔مونچھیں کاٹنا اور خوب پست کرنا:مونچھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے سے خوبصورتی اور نظافت پیدا ہوتی ہے۔کفار کی مخالفت بھی ہو جاتی ہے جس کا ہمیں حکم اور تاکید ہے۔مونچھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے اور داڑھی بڑھانے اور اسے سنوار نے کی رغبت میں متعدد احادیث آئی ہیں کیونکہ داڑھی کے رکھنے میں مرد کا حسن وجمال اور اس کی مردانگی ظاہر ہوتی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ اکثر لوگ حدیث کی مخالفت کے درپے ہیں بڑی بڑی مو نچھیں رکھ رہے ہیں داڑھیاں مونڈ رہے ہیں اور کاٹ رہے ہیں یا ٹھوڑیوں پر چند بال رکھ رہے ہیں یہ سب کچھ سیرت نبوی کی کھلی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمنوں کی تقلید ہے۔ ایسا شخص مردانہ خوبیوں اور بلندیوں سے اتر کرنسوانی علامات اور پستیوں کو اختیار کرتا ہے۔ ان لوگوں ہی پر شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

يُقْضَى على المرءِ أيامَ محنتِهِ
حتى يَرَى حَسَناً مَا لَيْسَ بالحَسَنِ

علامہ اقبال کی زبان میں اس شعر کا ترجمہ یوں ہے۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

ایک اور شاعر نے یوں کہا ہے۔

ولا عجب أن النساء ترجلت
ولكن تأنيث الرجال عجيب

"یہ بات عجیب نہیں کہ عورتیں مرد بن گئی ہیں لیکن مردوں کا عورتیں بن جانا تعجب خیز ہے۔"

4۔ناخن تراشنا:خصائل فطرت میں سے ایک خصلت ناخن تراشنا ہے بڑھانا نہیں۔ یہ عمل جسمانی صفائی میں شامل ہے۔ناخنوں کو تراشنے سے ان کے نیچے جما ہوا میل کچیل دور ہو جاتا ہے درندوں اور حیوانوں کے ساتھ مشابہت سے اجتناب ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہپی ازم کے دلدادہ منچلے جو ان اور شوخ لڑکیاں لمبے لمبے ناخن رکھنے ہمیں جو کہ فطری خصلتوں کی مخالفت ہے سیرت نبوی سے اعراض ہے اور جاہلوں کی تقلید ہے۔

5۔بغلوں کے بال اکھیڑنا بغلوں کے بال اکھیڑنا:بغلوں کے بال اکھیڑنا مسنون ہے تاہم مونڈنا یا کسی پاؤڈر سے صاف کرنا بھی جائز ہے کیونکہ ان بالوں کے اتارنے سے مقصود و نظافت و صفائی ہے اس طرح وہ بدبو بھی ختم ہو جاتی ہے جو ان بالوں کی وجہ  سے پیدا ہوتی ہے۔

اے مسلمان! ہمارا دین اسلام ان تمام مذکورہ خصائل و اوصاف کو مشروع قراردیتا ہے کیونکہ ان میں ایک مسلمان کے لیے حسن و جمال خود کو پاک صاف کرنا ہے اور مشرکین کی مخالفت بھی ہے بلکہ ان اوصاف فطرت میں بعض امور ایسے ہیں جن سے مرد اور عورت میں امتیاز پیدا ہوتا ہے تاکہ ہر ایک صنف اپنے اپنے دائرہ زندگی میں رہ کر اپنی مناسب شخصیت کو قائم رکھے۔ لیکن کئی فریب خوردہ اور ظالم انسان ان اوصاف فطرت کو عملاً قبول کرنےسے انکار کر رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی(ان احکام میں)مخالفت کر رہے ہیں اور ایسی درآمدی تہذیب کی تقلید کر رہے ہیں جو ہمارے دین اسلامی تشخص سے مناسبت نہیں رکھتی ۔ ان لوگوں نے بعض مغربی یا مشرقی رذیل شخصیتوں کو اپنا آئیڈیل بنا لیا ہے اعلیٰ چھوڑ کر ادنی کو پسند کر لیا ہے بلکہ طیب و کامل سے صرف نظر کر کے خبیث اور ناقص صورت پر اکتفا کر بیٹھے ہیں۔ یوں انھوں نے اپنے آپ پر اور مسلم معاشرے پر ظلم کر کے ایک قبیح چیز کو رواج دیا۔ یہ لوگ اپنے گناہوں اور ان لوگوں کے گناہوں کے ذمہ داربن گئے جو ان کی روش پر چلیں گے اور ان کے قدم پر قدم رکھیں گے۔"لاحول ولا قوة الا بالله العلي  العظيم"

اے اللہ! مسلمانوں کو اپنے اعمال واقوال کی اصلاح کی توفیق دے انھیں اخلاص اور اتباع سنت کی دولت سے مالا مال فرمادے۔"(آمین )  


[1]۔(ضعیف)جامع الترمذی النکاح باب ماجاء فی فضل الترویج والحث وعلیہ حدیث 1080۔

[2]۔المصنف لا بن ابی شیبہ باب ماذکر فی السواک 1/155حدیث:1787۔ورواء البخاری تعلیقاً باب السواک الرطب والیایس للصائم قبل حدیث 1934۔واصلہ متفق علیہ صحیح البخاری الجمعۃ باب السواک یوم الجمعۃ حدیث: 887۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب السواک حدیث 252۔

[3] ۔صحیح البخاری الوضوء باب السواک حدیث 245 وصحیح مسلم الطہارۃ باب السواک حدیث 255۔

[4]۔مصنف نے اس بارے میں کوئی نص پیش نہیں کی اور مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حصول کا سبب ہے نیز اس کا شمار مستحسن کاموں میں ہوتا ہے اس لیے مسواک کا استعمال دائیں ہاتھ سے کرنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 38

تبصرے