سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(4) قضائے حاجت کے آداب

  • 23679
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-30
  • مشاہدات : 2278

سوال

(4) قضائے حاجت کے آداب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضائے حاجت کے آداب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ان تمام امور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو دین و دنیا میں انسانوں کو پیش آتے ہیں۔ ان میں ایک پہلو قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم کا بھی ہے۔ دین اسلام نے یہ آداب بھی سکھلائے ہیں تاکہ انسان اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے حیوان سے ممتاز رہے۔علاوہ ازیں ہمارا دین طہارت و نظافت والا دین ہے جو ہر مسلمان سے طہارت و صفائی کا متقاضی ہے لہٰذا ہم یہاں بالا اختصاران آداب شرعیہ کا ذکر کرتے ہیں جو ایک مسلمان کو بیت الخلا میں جاتے وقت اور قضائے حاجت کے دوران ملحوظ خاطر رکھنے چاہئیں ۔

جب کوئی مسلمان قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں داخل ہو تو پہلے بایاں قدم اندر رکھے اور (داخل ہونے سے پہلے) یہ دعا پڑھے۔

«بِسْمِ اللہِ» اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الـخُبْثِ والـخَبَائِثِ»

"اللہ کے نام سے میں خبیث نر اور خبیث مادہ شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔"[1]

قضائے حاجت سے فراغت کے بعد باہر نکلتے وقت پہلے دایاں قدم باہر رکھے اور (باہرآکر) یہ کہے:

"غفرانك"

"تیری بخشش کا سوال کرتا ہوں۔"[2]

"الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الأَذَى وعَافَانِي"

"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے مجھ سے نجاست دور کر دی اور تندرستی دی۔"[3]

واضح رہے کہ دائیں ہاتھ پاؤں کا استعمال پاکیزہ اور اچھے کاموں کے لیے ہے جبکہ بائیں پاؤں کا استعمال اکثر نجاست وغیرہ دور کرنے کے لیے  ہوتا ہے:

جب کوئی شخص (چار دیواری کے بجائے) کسی کھلی جگہ میں قضائے حاجت کا ارادہ کرے تو اسے دور اور ایسی الگ جگہ تلاش کرنی چاہیے جو انسانی نگاہوں سے محفوظ ہو یا دیوار درخت وغیرہ کی اوٹ میں چلا جائے۔"

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔[4]

ہر مسلمان کو چاہیے کہ حتی الوسع اپنے بدن اور کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹوں سے بچائے۔ اس بارے میں احتیاطی صورت یہ ہے کہ وہ کسی نرم جگہ کو تلاش کرے تاکہ اس پر چھینٹے اڑ کر نہ پڑیں۔"

کوئی شخص اپنی شرمگاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگائے۔ لوگوں کے راستوں سائے کی جگہوں اور پانی کے چشموں اورگھاٹوں وغیرہ پر پیشاب یا قضائے حاجت کے لیے نہ بیٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے روکا ہے۔[5]کیونکہ یہ چیز لوگوں کے لیے اذیت و تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

بیت الخلاء میں کوئی ایسی چیز ساتھ لے کر نہ جائے جس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر لکھا ہو یا قرآنی آیات درج ہوں۔ اگر کوئی مجبوری ہوتو جیب میں بند کر لے یا کسی کپڑے میں اچھی طرح ڈھانپ لے۔

 قضائے حاجت کے وقت گفتگو نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی حرکت سے ناراض ہوتا ہے۔[6]اس دوران  میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی حرام  اور منع ہے:

جب قضائے حاجت سے فارغ ہو تو پانی یا مٹی کے ڈھیلوں کے استعمال سے خوب طہارت و نظافت حاصل کرے۔ اگر کوئی شخص پانی اور مٹی دونوں استعمال کر لے تو یہ افضل ہے وگرنہ کسی ایک پر اکتفا بھی جائز اور کافی ہے۔ استنجاء کے لیے ٹشو پیپر یا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہےبشرطیکہ ان سے جسم اچھی طرح صاف اور خشک ہو جائے ان شیاء کو کم ازکم تین مرتبہ استعمال کیا جائے البتہ ضرورت محسوس ہو تو تین سے زائد مرتبہ استعمال کرنا بھی درست ہے:

استنجا کے لیے ہڈی ،جانورکی لید اور گوبر کو ہر گز استعمال میں نہ لایا جائے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے منع کیا ہے۔"[7]

اعضائے بدن پر نجاست کے ظاہری اثرات کو اچھی طرح ختم کیا جائے یہاں تک کہ مقام نجاست خوب صاف اور خشک ہو جائے۔ نجاست کے باقی رہنے کی صورت میں اندیشہ ہے کہ وہ پھیل کر جسم یا کپڑے کے پاک حصے کو پلید کردے گی۔

بعض فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ وضو سے پہلے (بہر صورت )استنجا کرنا صحت وضو کے لیے شرط ہے اگر پہلے وضو کرے گا پھر استنجا کرے گا تو اس کا وضو باقی نہیں رہے گا کیونکہ حضرت مقداد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی متفق علیہ روایت میں ہے:

"يغسل ذكره ويتوضأ" 

"وہ اپنی شرم گاہ دھوئے پھر وضو کرے۔"[8]

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:ہے:"ایک مسلمان کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ وہ وضو سے پہلے استنجا کر لے تاکہ وہ دائرہ اختلاف سے نکل جائے اور نقص طہارت کا اندیشہ نہ رہے۔"

میرے مسلمان بھائی! پیشاب کی چھینٹوں سے خود کو اور اپنے کپڑوں کو بچائیے کیونکہ اس بارے میں بے احتیاطی عذاب قبر کا باعث بن سکتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے:

"اِسْتَنْزِهُوا مِنْ اَلْبَوْلِ, فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ اَلْقَبْرِ مِنْهُ"

"پیشاب سے بچو زیادہ تر یہی چیز عذاب قبر کا سبب بنتی ہے۔"[9]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو صحیح الاسناد قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس حدیث کے شواہد ہیں اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔[10]

میرے بھائی! طہارت کامل ہوتو عبادت کی ادائیگی آسان ہو جاتی ہے بلکہ تکمیل طہارت مسنون  طریقے سے عبادت کو سر انجام دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی۔ ہے۔ حضرت شبیب ابو روح رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ اس میں آپ نے سورۃ روم کی تلاوت شروع کی تو اختلاط و نسایان واقع ہونے لگا نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا:

"إِنَّهُ يَلْبِسُ عَلَيْنَا الْقُرْآنَ، أَنَّ أَقْوَامًا مِنْكُمْ يُصَلُّونَ مَعَنَا لا يُحْسِنُونَ الْوُضُوءَ، فَمَنْ شَهِدَ الصَّلاَةَ مَعَنَا فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوءَ"

"مجھے قرآن مجید کی تلاوت میں اختلاط و نسایان ہو رہا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں لیکن وہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے ۔خبردار !جوشخص ہمارے ساتھ نماز ادا کرے وہ اچھی طرح وضو کرے۔"[11]

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسجد قبا میں نماز پڑھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کی بہت تعریف کی ہے فرمایا:

"فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ"

"اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔"[12]

جب ان سے طریقہ طہارت پوچھا گیا تو انھوں نے جواباً کہا کہ ہم مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔"[13]

تنبیہ:

جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک استنجاء کرنا وضو کا حصہ ہے لہٰذا جب بھی وضو کیا جائے تو اس سے پہلے استنجا ء ضرور کیا جائے اگرچہ وہ اس سے پہلے (قضائے حاجت سے فراغت کے بعد) استنجاء کر چکا ہو۔

یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ استنجا کا تعلق وضو سے ہر گز نہیں بلکہ استنجاء کا تعلق قضائے حاجت سے ہے لہٰذا اسے وضو کے لیے نئے سرے سے استنجاء کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔

میرے بھائی !ہمارا دین طہارت و نظافت کادین ہے آپ حسن آداب اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ رہیے ایک مسلمان کی جو احتیاج ہے اور جس میں اس کی اصلاح ہے۔اس کے متلاشی رہیے ۔جس چیز میں مصلحت ہے اس میں غفلت نہ برتیے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دین میں استقامت دے اعمال میں بصیرت بخشے احکام شرعیہ میں اخلاص و عمل کی توفیق دے تاکہ ہمارا ہر عمل رب تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہو۔(آمین)


[1]۔فتح الباری 1/244۔و۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا خرج من الخلاء ؟ حدیث 6۔

[2]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا خرج من الخلاء ؟ حدیث 30وجامع الترمذی الطہارۃ باب مایقول اذا خرج من الخلاء؟حدیث:7۔

[3]۔(ضعیف) وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب مایقول اذا خرج من الخلاء ؟حدیث :301۔یہ دعا سنداًضعیف ہے لہذا پہلی دعا کا پڑھنا ہی کافی ہے۔

[4]۔صحیح البخاری الوضوء باب لا تسقبل القبلہ بیوولا غائط حدیث 144 وصحیح مسلم الطہارۃ باب الا ستطابۃ حدیث 264۔

[5]۔سنن ابن داؤد الطہارۃ باب المواضع التی نہی عن البول فیہا حدیث25۔26۔وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب النھی عن الخلاء علی قرعۃ الطریق حدیث 328۔ومسند احمد:3/36۔

[6]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب کراھیۃ الکلام عندالخلاء حدیث 15۔وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب النھی عن الاجتماع علی الخلاء والحدیث عندہ حدیث 342ومسند احمد 3/36۔

[7]۔صحیح البخاری الوضو باب الاستنجاء بالجحارۃ حدیث156۔وسنن النسائی الطہارۃ باب النھی الاستطابۃ بالعظم حدیث 39۔

[8]۔صحیح مسلم الحیض المذی حدیث303۔

[9]۔سنن الدارقطنی:1/127۔حدیث 457۔

[10]۔صحیح البخاری الوضو باب من الکبائر ان لایستر من یر لہ حدیث 216۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب الدلیل علی نحاسۃ ولبول ووجوب الاستبراء منہ حدیث 292۔

[11]۔مسند احمد 3/47247۔

[12]۔النور:9/108۔

[13]۔(ضعیف) مختصر زوائد مسند البزار 1/155۔ یہ روایت ضعیف ہے تاہم استنجا کرتے وقت صرف مٹی کے ڈھیلے یا ڈھیلے اور پانی یا صرف پانی استعمال کرنا جائز ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 33

تبصرے