السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس شخص کو کوئی گمشدہ چیز ملے تو کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سال بھر اس کا اعلان کرواتا رہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات کا فیصلہ گمشدہ چیز کی حیثیت اور نوعیت دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ گری پڑی یا گمشدہ چیز کی عموما تین صورتیں ہو سکتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
اولا: ایسی چیز جو معمولی حیثیت کی ہو اور کھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہو اُسے صاف کر کے کھایا بھی جا سکتا ہے اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا اعلان کرنا ضروری نہیں۔ اس کی دلیل انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے سے گزرے، آپ نے راستے میں گری پڑی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا:
(لولا انى اخاف ان تكون من الصدقة لاكلتها)(بخاري، اللقطة، اذا وجدتمرة فی الطریق، ح: 2431)
’’اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ کھجور صدقے کی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔‘‘
نوٹ: صدقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لیے حرام ہے۔
ثانیا: ایسی چیز معمولی نوعیت کی ہو لیکن کھانے کے لیے کام آنے والی نہ ہو تو لوگوں میں اس کی تشہیر تین دن تک کرتا رہے جیسے چاقو، چھڑی وغیرہ۔
(التحاف الکرامشرح بلوغ المرام من ادلة الاحکام، ص: 615)
ثالثا: اگر چیز قیمتی ہو تو سال بھر اس کا اعلان کروائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کی تشہیر کرے اگر اس چیز کا اصل مالک نہ ملے تو اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ احتیاطا اس کی نشانیاں اور تعداد وغیرہ یاد رکھ لے، اگر بعد میں مالک آ جائے تو اتنی قیمت ادا کر دے یا مالک اسے خود بخود چھوڑ دے۔ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اُس نے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
(اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها قال فضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب قال فضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها)(بخاري، اللقطۃ، اذا لم یوجد صاحب اللقطة بعد سنة فھی لمن وجدھا، ح: 2429)
’’اُس کی تھیلی اور تسمہ پہچان رکھو پھر سال بھر تک لوگوں سے دریافت کرتے رہو اگر اس کا مالک آ جائے تو بہتر ورنہ تمہارا اختیار ہے۔ اُس نے پوچھا: گمشدہ بکری کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ تمہاری بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی۔ اس نے گمشدہ اونٹ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اس کا پانی اور اس کے جوتے اس کے پاس ہیں۔ گھاٹ پر آ کر پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھا لے گا یہاں تک کہ اس کا مالک آ کر اسے لے لے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
(عرفها سنة ثم اعرف وكاءها ووعاءها وعفاصها ثم استنفق بها فان جاء ربها فادها اليه)(ترمذي، الاحکام، ماجاء فی اللقطة، ح: 1372)
’’اس کی ایک سال تک پہچان کرواؤ۔ پھر اس کا تسمہ، ظرف اور تھیلی پہچان رکھو، پھر اسے خرچ کرلو،اب اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو۔‘‘
اگر چیز بہت ہی زیادہ قیمتی ہو تو اس کا تین سال تک انتظار کیا جائے گا جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ایک سال انتظار کا حکم دیا۔ مالک نہ ملنے پر پھر ایک سال کا حکم دیا۔ تیسری مرتبہ پھر ایک سال انتظار کرنے کا حکم دیا۔ (ایضا، ح: 1374)
لہذا چیز کی نوعیت دیکھ کر مذکورہ بالا صورتوں میں سے متعلقہ صورت کو اختیار کیا جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب