سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) پیٹ کے بل لیٹ کر سونا؟

  • 23661
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-25
  • مشاہدات : 2487

سوال

(292) پیٹ کے بل لیٹ کر سونا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگوں کو اُلٹا سونے کی عادت ہوتی ہے، کیا اس طرح سونا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دائیں پہلو پر لیٹنا مسنون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی یہی ہے۔ براء بن عازب فرماتے ہیں: مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب تُو اپنے سونے کی جگہ پر آئے تو نماز کا سا وضو کر لے، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ اور یوں دعا کر:

(اللهم أسلمت وجهى إليك وفوضت أمرى إليك وألجأت ظهرى إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك الا اليك اللهم امنت بكتابك الذى أنزلت ونبيك الذى أرسلت)(بخاري، الوضوء، فضل من بات علی الوضوء، ح:

’’اللہ! آپ کے ثواب کے شوق میں اور  آپ کے عذاب کے ڈر سے میں نے اپنے آپ کو آپ کے سپرد کیا اور اپنا کام آپ کو سونپ دیا اور اپنی پشت کو آپ کے حوالے کر دیا، آپ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانا نہیں مگر  آپ کے ہی پاس۔ یا اللہ! میں آپ کی کتاب (قرآن) پر ایمان لایا جسے آپ نے اتارا اور آپ کے نبی پر جسے آپ نے بھیجا۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے لگتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور پھر یہ دعا تین بار پڑھتے:

(اللهم قنى عذابك يوم تبعث عبادك)(ابوداؤد، الادب، ما یقال عند النوم، ح: 5045، ترمذي، ح: 3398، مسند احمد، 382/5)

’’اللہ! مجھے اس دن کے عذاب سے بچا لینا جس دن تُو اپنے بندوں کو (اخروی زندگی کے لیے) اٹھائے گا۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر جائے تو اپنے تہبند کا ایک کونہ پکڑ کر بستر کو جھاڑے اور بسم اللہ کہے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد اس کے بستر پر کونسی چیز آئی۔ پھر جب لیٹنے لگے تو دائیں کروٹ پر لیٹے اور کہے:

(سبحانك ربى بك وضعت جنبى و بك ارفعه ان امسكت نفسى فاغفرلها و ان ارسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين)(مسلم، الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، الدعاء عندالنوم، ح: 1427)

’’پاک ہے تُو میرے رب! تیرا نام لے کر میں کروٹ زمین پر رکھتا ہوں اور تیرے نام سے اٹھاؤں گا۔ اگر تُو میری جان روک لے تو اسے بخش دے اور اگر چھوڑ دے (بدن میں آنے کے لیے) تو اس کی حفاظت کرنا جس سے تُو حفاظت کرتا ہے اپنے نیک بندوں کی۔‘‘

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو سوتے وقت دائیں پہلو پر لیٹنا چاہیے۔ چِت لیٹنا بھی جائز ہے، چنانچہ حدیث نبوی ہے:

(ولا تضع احدى رجليك على الاخرى اذا استلقيت)(مسلم، اللباس والزینة، النھی عن اشتمال الصماء ۔۔، ح: 2099)

’’جب تُو چِت لیٹتا ہے تو اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر مت رکھ۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر گھٹنا کھڑا کر کے ایک پاؤں پر دوسرا پاؤں رکھا جائے تو اس سے ستر کھلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسا کرنا منع کیا گیا ہے۔ البتہ اگر ایک پاؤں دوسرے پر اس طرح رکھ لیا جائے کہ ستر کھلنے کا امکان نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔

پہلو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا راى احدكم رؤيا يكرهها فليبصق عن يساره وليتعوذ بالله من الشيطان ثلاثا ويتحول عن جنبه الذى كان عليه)(ابوداؤد، الادب، ما جاء فی الرؤیا، ح: 5022)

’’جب تم میں سے کوئی برا خواب دیکھے تو اپنی بائیں طرف تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے، اور جس پہلو پر تھا اس سے پھر کر دوسری کروٹ لے لے۔‘‘

ایک حدیث کے مطابق پہلو بدلتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے:

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو پہلو بدلتے تو یہ کلمات کہتے:

(لا اله الا الله الواحد القهار رب السموات والارض وما بينهما العزيز الغفار)(صحیح الجامع 213/4، السنن الکبری للنسائي، عمل الیوم واللیلة، ح: 10634)

’’اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا زبردست ہے۔ آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان والی چیزوں کا رب، جو غلبے والا اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے مگر الٹا لیٹنا منع ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

(ان هذه ضجعة لا يحبها الله)(ترمذي، الادب، ما جاء فی کراھیة الاضطجاع ۔۔، ح: 2768)

’’لیٹنے کا یہ انداز ایسا ہے کہ اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔‘‘

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تو آپ نے مجھے اپنے پاؤں سے چھوتے ہوئے فرمایا:

(يا جنيدب انما هذه ضجعة اهل النار)(ابن ماجة، الادب، النھی عن الاضطجاع ۔۔،  ح: 3724)

’’جنیدب! لیٹنے کا ایہ انداز جہنمیوں کا ہے۔‘‘

لہذا جن لوگوں کو اُلٹا لیٹنے کی عادت ہے انہیں چاہیے کہ اپنی اس عادت کو بدلنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچ سکیں۔ نیز ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی کے مطابق کریں تاکہ بری عادات بچوں میں منتقل نہ ہوں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلامی آداب و اخلاق،صفحہ:617

محدث فتویٰ

تبصرے