السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بعض حالات میں خودکشی جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خودکشی کرنا انسان کے بزدل، بے صبرا اور ناشکرا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ کسی بھی مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے۔ دراصل خودکشی کے مرتکب ویسی زندگی نہیں چاہتے جیسی انہیں مل چکی ہوتی ہے لیکن وہ اس بات سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں کہ دنیا دارالجزاء نہیں، دارالامتحان ہے۔
خودکشی کی ممانعت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورة النساء
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بےشک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
دوسری آیات میں فرمایا:
﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ ...﴿١٩٥﴾... سورة البقرة
’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔‘‘
اس لیے ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کسی بڑے سے بڑے نقصان اور بڑی سے بڑی مصیبت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله خير ، وليس ذاك لأحد إلا للمؤمن ؛ إن أصابته سرّاء شكر ؛ فكان خيراً له ، وإن أصابته ضرّاء صبر ؛ فكان خيراً له) (مسلم، الزهد، المؤمن امره کله خیر، ح: 2999)
’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا کوئی کام خیروبرکت سے خالی نہیں، اور مومن کے علاوہ کسی اور کو یہ سعادت میسر بھی نہیں۔ اگر اسے کوئی مسرت نصیب ہوتی ہے تو اللہ کا شکرگزار ہوتا ہے، یہ اس کے حق میں خیر کا باعث ہوتا ہے۔‘‘
نیز مصیبت پر صبر کرنے والوں کے بارے میں ارشاد رب العالمین ہے:
﴿ إِنَّما يُوَفَّى الصّـٰبِرونَ أَجرَهُم بِغَيرِ حِسابٍ ﴿١٠﴾... سورة الزمر
’’صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب ملے گا۔‘‘
مزید برآں صبر کرنے والے اللہ کی نوازشات اور رحمتوں کے مستحق نیز ہدایت یافتہ ہیں۔ (البقرۃ 157/2)
لہذا انسان کو زندگی کی نعمت کی قدر پہنچاتے ہوئے اس جرم سے باز رہنا چاہئے۔
البتہ اگر کسی مسلمان کو خطرہ لاحق ہو جائے کہ اسے کفار قیدوبند کی صعوبتوں میں ڈال کر مسلمانوں کے راز افشا کروا لیں گے تو دریں صورت بعض اہل علم نے اپنی جان تلف کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان کا استدلال سورۃ البروج میں مذکورہ اصحاب الاخدود کے واقعہ کا پس منظر بھی ہے۔ جس کا ذکر صحیح مسلم میں بھی ہے۔
خودکشی کی ایک قسم وہ ہے جس میں انسانی دماغی بیماری (مثلا شیزوفرینیا) کی وجہ اپنی جان لے لیتا ہے۔ ایسے لوگوں پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ اس لیے کہ ان کا ذہن ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اس قسم کے لوگ شریعت کی نظر میں مرفوع القلم کہلاتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب