السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہمیشہ یا عارضی طور پر جہنم میں رہیں گے؟ کیونکہ کبیرہ گناہ کرنے والے بعض لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کفر و شرک کے علاوہ کسی بھی کبیرہ گناہ کا مرتکب مومن ابدی جہنمی نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (م 321ھ) لکھتے ہیں:
"واهل الكبائر من امة محمد صلى الله عليه وسلم فى النار لا يخلدون ماتوا وهم موحدون وان لم يكونوا تائبين بعد ان لقوا الله عارفين وهم فى مشيئة و حكمه"
’’امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لوگ جو کبائر کے مرتکب ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے لیکن اس میں ہمیشہ نہیں رہیں گے جب وہ توحید پر فوت ہوئے اور کبائر گناہوں سے تائب بھی نہیں ہوئے البتہ جب ان کی ملاقات اللہ سے ہوئی (یعنی جب وہ فوت ہوئے) تو وہ اللہ کی معرفت رکھتے تھے، ایسے لوگ اللہ کی مشیت میں ہیں۔‘‘
(شرح عقیدة طحاویة، ص: 469، 470)
مشیت کا ذکر درج ذیل آیات میں ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا ﴿٤٨﴾... سورة النساء
’’یقینا اللہ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔‘‘
دوسری آیت میں فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا بَعيدًا ﴿١١٦﴾... سورة النساء
’’اسے اللہ قطعا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف کر دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء (سعودی عرب) کے فتاویٰ میں بھی یہی موقف کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے، شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ قرآنی الفاظ (وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ) کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ فرمانِ الہٰی اس مومن کے بارے میں ہے جو شرک کے علاوہ گناہوں کا مرتکب ہونے کی حالت میں فوت ہو جبکہ اس نے توبہ نہ کی ہو، اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے، چاہے اسے معاف کر دے اور اگر اس کی مشیت ہو تو اسے عذاب دے، اور اگر اسے سزا بھی دی جائے گی تو کفار کی طرح اسے دائمی طور پر جہنم میں نہیں رکھا جائے گا جیسا کہ خوارج، معتزلہ یا ان کی ڈگر پر چلنے والے کہتے ہیں، بلکہ (گناہوں کی سزا پا کر) پاک و صاف ہو کر لازمی طور پر وہ دوزخ سے نکلے گا۔ جس کا ثبوت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث ہیں اور اس پر اسلافِ امت کا اجماع ہے۔ (شبھات و اشکالات حول بعض الاحادیث والایات، ص: 66، ط: 1،1422ھ / 2001ء، دارالثبات، ریاض)
جب تک ایک شخص مومن رہتا ہے اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا وہ اگرچہ کبائر کا مرتکب ہو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو جائے گا کیونکہ اہل ایمان سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَدَ اللَّهُ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها وَمَسـٰكِنَ طَيِّبَةً فى جَنّـٰتِ عَدنٍ وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ أَكبَرُ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿٧٢﴾... سورة التوبة
’’ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے اُن جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان عمدہ پاکیزہ محلات کا، جو اُن ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يَرَهُ ﴿٧﴾... سورة الزلزال
’’جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
اور ایمان چونکہ عمل خیر ہے جب تک وہ باقی ہے اس کی جزا بھی باقی ہے اگرچہ مومن معاصی کا مرتکب ہو۔ اس لیے مومن مخلد فی النار (دائمی جہنمی) نہیں۔
(اسی طرح دیکھیں درج ذیل آیات: الانبیاء 21/47، الاعراف8-9، آل عمران، 3/30، البقرۃ 2/281)
بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار اہل ایمان کو بالآخر جہنم سے ان کے ایمان کی وجہ سے نکال لیا جائے گا۔ طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے:
ارشاد نبوی ہے کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
(من كان فى قلبه مثقال حبة من خردل من ايمان فاخرجوه فيخرجون)(بخاري، الرقاق، صفة الجنۃ والنار، ح: 6560، الایمان، تفاضل اھل الایمان فی الاعمال، ح: 22)
’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے (دوزخ سے) نکال لو تو وہ (فرشتے) انہیں نکال لیں گے۔‘‘
کبائر کے ارتکاب کے باوجود بھی اہل ایمان کو قرآن و حدیث میں مومن ہی کہا گیا ہے۔ مثلا مسلمانوں کی وہ جماعتیں جو باہم برسرِ پیکار ہو جائیں قرآن کریم نے ان کے اس جرم کے باوجود ان کا تذکرہ مومن کہہ کر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سورۃ الحجرات (آیت:9)﴿ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ﴾سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں مومن ہی کہا ہے۔
(بخاری، الایمان، ﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ...﴾
اسی طرح حدیث میں ہے:
(إذا التقى المُسلمان بسيْفَيهما فالقاتِل والمَقتول في النّار)(ایضا، ح: 30)
’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوارین لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔‘‘
حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا:
(إن ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين)(ایضا، الصلح، قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم للحسن بن علي: (إن ابني هذا سيد۔۔)، ح: 2704)
’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعے اللہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔‘‘
یہ بڑی جماعتیں جو جمل و صفین میں باہم برسر پیکار ہوئیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کی دو جماعتیں ہی کہا ہے نہ کہ کفار کی جماعتیں۔ مزید برآں قاتل کو مقتول کے ورثاء کا بھائی کہا گیا ہے:
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ...﴿١٧٨﴾... سورة البقرة
مسلمان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے مگر اس کے باوجود مومنوں کی، جو آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، باہمی اخوت ختم نہیں ہوتی۔
تو جب تک کوئی شخص مومن رہے گا خواہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب بھی ہو جائے وہ ابدی جہنمی نہیں ہے، تو جن آیات (البقرۃ 2/81، النساء: 4/14،93، الفرقان: 25/69، الجن: 27/23 وغیرھا) میں خالدون، خالدين،خالدا اور يخلد جیسے الفاظ آئے ہیں انہیں علمائے محققین اور مفسرین نے مشروط قرار دیا ہے۔ مثلا مومن کے قاتل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سور ةالنساء
’’اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اسے اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔‘‘
آیت کا مطلب یہ ہے: ﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا﴾ لكونه مومنا) کہ جو شخص کسی مومن کو اُس کے مومن ہونے کی وجہ سے قتل کرے وہ مخلف فی النار ہے اور ظاہر ہے کہ کسی مومن کو اِس وجہ سے قتل کرنا کہ وہ مومن ہے یہ کفر ہے کیونکہ یہ ایمان سے نفرت اور عداوت کی دلیل ہے اور ایمان سے عداوت و نفرت رکھنا کفر ہے، وجہ اس تاویل کی یہ ہے کہ جب کسی حکم کو کسی مشتق پر مرتب کیا جاتا ہے تو اس مشتق کا مصدر ترتبِ حکم کی علت ہوتا ہے یہاں پر قتل مرتب ہو رہا ہے مومن پر جو کہ مشتق ہے پس اس کا مصدر یعنی ایمان قتل کی علت بن جائے گا کہ یہ شخص ایمان کی وجہ سے اسے قتل کر رہا ہے جیسے کہا جائے: ضربت السارق اس کا مطلب یہ ہوتا ہے:
۔ ضربت السارق لكونه سارقا ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾اس کا مطلب ہے: ﴿فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ لكونهما سارقين) (مشکلات القرآن (گ)، ص: 43)
یعنی ان کے چور ہونے کی بنا پر ان کے ہاتھ کاٹے جائیں۔
مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفاسیر میں یہی مفہوم اختیار کیا ہے۔
(وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا) کی تفسیر میں ان کے الفاظ ہیں:
"من حيث انه مؤمن لا يرضى ايمانه" یعنی اس لیے مومن کو کوئی قتل کرے وہ اس کے ایمان لانے سے خوش نہیں۔
(تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن، ص: 138، ط:1، 1423ھ/2002ء، دارالسلام، ریاض)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مومن کے قاتل کے بارے میں لکھتے ہیں:
وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر حدیثوں سے ثابت ہے کہ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے برابر بھی ایمان ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب