السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کبیرہ گناہوں کے بارے میں چند سوالات کے بارے میں راہنمائی مطلوب ہے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ بعض گناہ کبیرہ ہوتے ہیں اور بعض صغیرہ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر گناہ کبیرہ ہوتا ہے!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب و سنت کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کبیرہ بھی ہوتے ہیں اور صغیرہ بھی۔ صغیرہ گناہ کا انکار قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی ہے۔ گناہوں کی کبائر و صغائر میں تقسیم قرآن مجید کی آیات سے ثابت ہے۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِن تَجتَنِبوا كَبائِرَ ما تُنهَونَ عَنهُ نُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَنُدخِلكُم مُدخَلًا كَريمًا ﴿٣١﴾... سورة النساء
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کبائر اور سیئات (صغیرہ گناہوں) میں فرق ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے ان نیک لوگوں کو اچھا بدلہ دینے کا اعلان کیا ہے جن کی صفت اس آیت میں بیان کی گئی ہے:
﴿الَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبـٰئِرَ الإِثمِ وَالفَوٰحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ...﴿٣٢﴾... سورة النجم
’’جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے سے گناہ کے۔‘‘
۔ اللَّمَمَ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ (زبدۃ التفسیر من فتح القدیر)
3۔ کبیرہ گناہوں سے بچنا اہل ایمان کی ایک صفت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبـٰئِرَ الإِثمِ وَالفَوٰحِشَ وَإِذا ما غَضِبوا هُم يَغفِرونَ ﴿٣٧﴾... سورة الشورىٰ
’’اور جو کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائی سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت بھی معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں كبائر، كبائر الاثم والفواحش، سيئات اور اللمم کے الفاظ سے گناہوں کا صغیرہ اور کبیرہ میں تقسیم ہونا واضح ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض گناہوں کو مُوبقات (مہلک) اور کبائر قرار دیا ہے۔ ایسی احادیث جن میں کبائر وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، بکثرت ہیں۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ ارشاد نبوی ہے:
(الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة و رمضان الى رمضان مكفرات ما بينهن اذا اجتنب الكبائر)(مسلم، الطھارة، الصلوات الخمس والجمعة۔۔، ح: 233)
’’پانچوں نمازیں، جمعہ آئندہ جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘
2۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اجتنبوا السبع الموبقات)
’’ان گناہوں سے بچو جو ہلاک کر دینے والے ہیں۔‘‘
(الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات الغافلات المؤمنات)(بخاري، الوصایا، قول اللہ تعالیٰ: (إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ ۔۔۔)، ح: 2766، مسلم، الایمان، بیان الکبائر، ح: 89، ابوداؤد، الوصایا، ما جاء فی التشدید فی اکل مال الیتیم، ح: 2874)
’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا، ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا تو اور بات ہے، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، میدان جنگ سے کفار سے مقابلے کے وقت راہِ فرار اختیار کرنا اور پاکدامن مسلمان بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘
3۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان من اكبر الكبائر شتم الرجل والديه)(بخاري، الادب، لا یسب الرجل والدیه، ح: 5973، مسلم، الایمان، الکبائر واکبرھا، ح: 90)
’’آدمی کا اپنے والدین کو سب و شتم کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔۔‘‘
4۔ عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا:
(ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ؟ . قلنا : بلى يا رسول الله . قال : الإشراك بالله ، وعقوق الوالدين وشهادة الزور ، ألا وقول الزور)(ایضا، عقوق الوالدین ۔۔، ح: 5976، مسلم، ح: 87)
’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ (تین بار فرمایا) اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کو تنگ کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا۔‘‘
5۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
اى الذنب اعظم عندالله؟
"اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟
آپ نے فرمایا:
(أن تجعل لله ندا وهو خلقك)
’’یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
(وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يُطْعَمَ مَعَكَ)
’’یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔‘‘
میں نے پوچھا کہ پھر اس کے بعد؟ فرمایا:
(أَنْ تُزَانِي حَلِيلَةَ جَارِكَ)
’’یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔‘‘
(بخاري، التفسیر، قوله تعالیٰ:﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٢﴾)، ح: 4477)
6۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگو! سن لو، اللہ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں، جو ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رمضا ن کے روزے رکھتے ہیں اور فرض جان کر خوش سے زکوۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ نے روک دیا ہے۔‘‘
ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:
’’شرک، قتل، میدان جنگ سے بھاگنا، یتیم کا مال کھانا، سود خوری، پاکدامنوں پر تہمت لگانا، مان باپ کی نافرمانی کرنا، بیت اللہ الحرام کی، جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے، حرکت کو توڑنا۔ سنو! جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ جنت میں سونے کے محلات میں ہو گا۔‘‘
(حاکم 59/1، ابوداؤد، الوصایا، ماجاء فی التشدید فی اکل مال الیتیم، ح: 2875)
7۔ ارشاد نبوی ہے کہ جو االلہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، نماز قائم رکھے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے، وہ جنتی ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: کبائر کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:
’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، مسلمان کو قتل کرنا، جنگ والے دن راہِ فرار اختیار کرنا۔‘‘
(مسند احمد 413،414/5، نسائي، تحریم الدم، ذکر الکبائر، ح: 4009)
مذکورہ بالا احادیث اور محدثین کی تبویب سے معلوم ہوا کہ بعض گناہ کبیرہ ہوتے ہیں۔ کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
کتاب و سنت، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اجماع سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں ہی قسم کے گناہ ہوتے ہیں۔
(معاشرہ کی مہلک بیماریاں اور ان کا علاج از شیخ احمد بن حجر ص: 31، ط: 1، 1985ء، بمبئی)
مفسرین نے بھی آیات و احادیث کی روشنی میں گناہوں کو کبائر و صغائر میں تقسیم کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب سورۃ النساء کی آیت 31 ﴿إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ ۔۔۔﴾ کے معارف و مسائل کے تحت ’’گناہوں کی دو قسمیں‘‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں:
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں۔ کچھ کبیرہ یعنی بڑے گناہ اور کچھ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ، اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی ہمت کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے صغیرہ گناہوں کو وہ خود معاف فرما دیں گے۔(معارف القرآن 383/2)
ایک عنوان انہوں نے یوں قائم کیا ہے:
گناہ اور اس کی دو قسمیں: صغائر، کبائر۔ (ایضا 282/4)
سید ابوالاعلیٰ مودودی سورۃ النجم کی آیت 32 ﴿الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ﴾ کی تفسیر میں صحابہ و تابعین کی تفسیری روایات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائم ہے کہ یہ آیت اور سورۃ النساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر ۔۔ کبائر اور صغائر کا فرق ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جب ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔(تفہیم القرآن 212،213/3)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب