السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ درست ہے کہ کسی نبی کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورج کو روک دیا تھا یا اس کی رفتار کو کم کر دیا تھا؟ یہ کون سے نبی تھے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نبی (یوشع بن نون علیہ السلام) کے لیے سورج کو روک دیا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بنی اسرائیل کے) پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر (یوشع بن نون علیہ السلام) نے جہاد کیا، انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جہاد کے لیے نہ جائے جس نے کسی عورت سے عقد کیا ہو اور ابھی اس سے صحبت نہ کی ہو یا جس نے گھر بنائے ہوں ان کی چھتیں نہ ڈالی ہوں (ابھی صرف دیواریں تیار کی ہوں) یا جس نے (حاملہ) بکریاں یا اونٹنیاں خریدی ہوں ان کے جننے کا منتظر ہو۔ خیر وہ جہاد کے لیے گئے اور ایک گاؤں (اریحا) کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت ہو گیا تھا یا نزدیک تھا، انہوں نے سورج کو مخاطب کر کے کہا:
(انك مامورة وانا مامور اللهم احبسها علينا فحبست حتى فتح الله عليه)(بخاري، الجھاد والسیر، قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم احلت لکم الغنائم ۔، ح: 3124)
’’تُو بھی (اللہ کا) تابع فرمان ہے اور میں بھی اسی کا تابع فرمان ہوں۔ پھر یوں دعا کی: یا اللہ! سورج کو روک دے! وہ روک دیا گیا یہاں تک کہ انہوں نے فتح حاصل کی۔‘‘
’’اس کی حرکت کو موقوف کر دے‘‘ سے معلوم ہوا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد حرکت کرتا ہے جیسے اگلے فلاسفہ کا قول تھا، حال کے سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ سورک مرکزِ عالم ہے اور زمین اور سب سیارے اس کے گرد گھومتے ہیں اور اس کی کشش اور اپنے ثقل کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ قائم ہیں، اگر یہ موقف صحیح ہو تو سورج کو روک دینے سے یہ مطلب ہو گا کہ زمین کو ساکن کر دے اور اس کا ساکن کرنا گویا سورک کو روک دینا ہے کیونکہ سورج ایک ہی مقام پر نظر آئے گا اور زمین کی تیز حرکت کی وجہ سے جو چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ بات نہ رہے گی۔ (تیسیر الباری شرح صحیح بخاری)
(قرآن و حدیث سے دلائل سے واضح ہے کہ سورج متحرک اور زمین ساکن ہے۔ حافظ مقصود احمد)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب