السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز عصر رہ گئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو سورج واپس لوٹ آیا۔ کیا یہ بات درست ہے یا یونہی لوگوں میں مشہور ہو گئی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس سلسلے میں کوئی بھی روایت آئمہ حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا ہو اور لوگوں کو اس کا علم تک نہ ہو محال سی بات ہے۔ سورج کا غروب کے بعد مغرب سے نکلنا تو قربِ قیامت کی بڑی نشانی ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ ظاہر ہو کر گزر جائے اور کسی کو علم بھی نہ ہو۔ عہدِ نبوی میں شق القمر (چاند دو ٹکڑے ہونے) کا واقعہ رونما ہوا تھا، وہ تواتر کے ساتھ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
پھر یہ کہ سورج جب ایک دفعہ غروب ہو گیا تو عصر کا وقت تو ختم ہو گیا۔ اب اگر سورج بالفرض دوبارہ واپس بھی پلٹ آئے تو نماز تو اصل وقت پر ادا نہیں ہو سکتی۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غروب آفتاب پر روزہ دار روزہ کھول سکتا ہے اور نماز مغرب پڑھی جا سکتی ہے۔ کیا دوبارہ سورج نکلنے پر وہ نماز اور روزہ باطل ہو گیا، یہ مفروضہ ناممکن ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض غزوات میں مشغولیت کی وجہ سے نماز قضا ہو گئی، ان غزوات میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی موجود تھے مگر اللہ تعالیٰ نے سورج کو لوٹا کر رات کو دن میں تبدیل نہیں کیا بلکہ نماز بعد میں ہی ادا کی گئی۔
اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب منتقی منھاج السنۃ النبویۃ، فصل ثالث، عنوان: خرافۃ رد الشمس لعلی مرتین بعد غروبھا اور حافظ ابن کثیر کی کتاب البدایۃ والنھایۃ، ھلد: 6)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب