سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) بینک سے لی گئی سودی رقم کہاں استعمال کی جائے؟

  • 23632
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 742

سوال

(262) بینک سے لی گئی سودی رقم کہاں استعمال کی جائے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم کسی مجبوری کی بنا پر بینک میں روپیہ جمع کرواتے ہیں اور اس پر سود ملتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ اگر نہیں لیں گے تو بینک یہ روپیہ رکھ لے گا اور سودی کاروبار فروغ پائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر ایسی بات ہو کہ سودی رقم بینک میں چھوڑ دی جائے تو اس کے اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے کا اندیشہ ہے یا بینک والے خود استعمال کریں گے اور اس سے سودی کاروبار کو فروغ حاصل ہو گا، تو وہ رقم بینک سے نکال لینی چاہئے، لیکن وہ رقم لے کر اپنے اوپر صرف کرنی چاہئے اور نہ کسی مسلمان کی مصلحت میں اسے صرف کرنا چاہئے، بلکہ اسے کسی ایسے کافر کو جس کے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ اسلام کا دشمن نہیں ہے، مسلمان کا دشمن نہیں ہے، اسے دے سکتے ہیں اور اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں وارد ہے:

’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے پر ایک حُلہ (جُبہ) بِکتے ہوئے دیکھا جس میں ریشم ملا ہوا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کاش! آپ یہ حلہ خرید لیتے اور اسے جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آتا زیبِ تن کرتے، آپ نے فرمایا: اسے وہ شخص زیب تن کرے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، پھر اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ ریشمی حُلے آئے تو اس میں سے ایک حلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو عطا کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے مجھے یہ پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے بارے میں ایسا ایسا فرمایا تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اسے آپ کے اپنے استعمال کے لیے نہیں دیا تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔‘‘(بخاري، الھبة، ھدیة ما یکرہ لبسھا، ح: 2612)

تو جیسے ریشم کا حلہ مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں مگر وہ کسی کافر کو دے سکتا ہے اسی طرح سود کی رقم بھی خود استعمال نہیں کر سکتے اور نہ کسی مسلمان کو دے سکتے ہیں مگر ایسے کافر کو جس سے تعلق ہو اور یہ معلوم ہو کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے، اسے دینا جائز ہے۔

(سود اور اس کے احکام و مسائل، ص: 102-104)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

خریدوفروخت اور حلال و حرام کے مسائل،صفحہ:561

محدث فتویٰ

تبصرے