السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت اپنے گھر سے باہر کام کاج اور ملازمت وغیرہ کر سکتی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ایسی صورت میں عورت کو کن کن پابندیوں کا لحاظ کرنا ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت پر کمانے کی شرعا کوئی ذمہ داری نہیں۔ نان و نفقہ کی تمام ذمہ داریاں مرد کے کنڈھوں پر ہیں۔ اگر کوئی کمانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں معاشی مجبوری کی وجہ سے عورت کے ملازمت کرنے پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن اگر اقتصادی مجبوری نہ ہو اور عورت کے اخراجات برداشت کرنے والا کوئی مرد ہو تو ایک طبقہ "روشن خیال" عورت کی ملازمت کو لازمی قرار دیتا ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ اگر مردوں کے ساتھ عورتیں بھی گھر سے باہر نکل کر کام کریں گی تو ایک طرف تو اس سے قومی دولت میں اضافہ ہو گا جبکہ دوسری طرف عورت مصروفیت کی وجہ سے بہت سے لایعنی کاموں سے محفوظ رہے گی۔ لیکن اگر درج ذیل حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس دلیل کا کھوکھلا پن واضح ہو جائے گا:
1۔ ملازمت کے میدان میں عورتوں کی شرکت سے مردوں کے اندر بےروزگاری کی عام شکایت ہے۔ اور اس سے اقتصادی حالت پر یقینا بُرا اثر پڑتا ہے۔
2۔ قوموں کے مفاد کو ہمیشہ مادی پیمانہ سے ناپنا غلط ہے۔ مادی خسارہ پر نظر رکھنے والے لوگ اس معنوی اور معاشرتی فساد کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو عورت کے گھر چھوڑنے سے خاندان اور اس کی اولاد کو لاحق ہوتا ہے، کیا یہ خسارہ ملک و ملت کا خسارہ نہیں؟
3۔ قومی ثروت میں اضافہ کی دلیل سے کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ فوج کے ہر فرد کو اُس کی ذمہ داری سے ہٹا کر کام میں لگا دیا جائے تاکہ قومی ثروت اور پیداوار میں اضافہ ہو۔ جس طرح فوج کے افراد کی اہم ذمہ داری ہے اسی طرح عورت بھی خاندان کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے ایک اہم ملی خدمت سرانجام دے رہی ہے جو اقتصادی خدمت سے کسی طرح بھی کم نہیں۔
4۔ خانگی امور کی انجام دہی اور اولاد کی تربیت اور نگرانی کے بعد عورت کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچ سکتا کہ وہ کسی لایعنی کام میں مصروف ہو جس سے بچانے کے لیے اسے گھر سے باہر کسی کام میں مصروف رکھنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ زیادتی کی بات ہے کہ گھریلو اُمور کی ذمہ داری کے بعد عورت کے اوپر مزید کوئی بوجھ ڈالا جائے۔
مغربی ممالک میں، جن کی تقلید میں عورتوں کو ملازمتوں میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، عورتیں درج ذیل کام بھی کرتی ہیں: اخبارات بیچنا، سڑکوں کی صفائی کرنا، چوکیداری کرنا، ٹیکسی چلانا، لوہے اور اسٹیل کے کارخانوں میں بھاری بھاری صندوق اٹھانا۔ اب قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرح کی ملازمت اختیار کرنے کے بعد عورت اپنے بچوں اور خاندان کے لیے کیا کر سکتی ہے؟ اسی وجہ سے یورپ کے لوگ اب تقریبا اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ خاندانی نظام کی خرابی کا تنہا سبب عورتوں کا ملازمت کے لیے گھروں سے نکلنا ہے۔ اگر عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے درج ذیل آداب و شرائط کو ملحوظ رکھنا چاہئے:
1۔ جو کام بھی اختیار کیا جائے وہ ایسا نہ ہو کہ اس سے عورت کی ان گھریلو ذمہ داریوں پر اثر پڑے جو ایک ماں یا خانگی امور کی نگراں کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔
2۔ مَردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو اور جسم کے جن حصص کا پردہ کرنا ضروری ہے ان کے کھولنے کی نوبت نہ آئے۔
3۔ کام کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے دوران عورت کو کسی مرد کے ساتھ کسی کمرہ میں تنہا نہ رہنا پڑے کیونکہ تنہائی کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔
4۔ عورت مردوں کے سامنے اپنی زینت اور آراستگی کا اظہار نہ کرے۔ لگاوٹ کے انداز میں بات نہ کرے اور نہ ایسا طریقہ ہی اختیار کرے جس سے شک و شبہ پیدا ہو۔
5۔ اخلاق و آداب کے تحفظ کے لیے اسلام نے جو اصول مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کی جائے۔
6۔ عورتوں پر ملازمت یا کام کا بوجھ ڈالتے ہوئے ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے بلاتفریق ہر طرح کے مشکل اور آسان کام میں عورتوں کو لگا دینا ان کی اور خود معاشرہ کی مصلحت کے بھی خلاف ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتی ہیں مثلا عورتوں اور بچوں کا علاج و تیمارداری، بچوں اور خواتین کی تعلیم و تربیت، سماجی خدمت کے مختلف شعبے۔ عورتوں کو اگر ان شعبوں میں ملازمت دی جائے تو یقینا وہ مردوں سے بہتر خدمت انجام دے سکتی ہیں۔ اور ان کی صلاحیتوں سے ملک و ملت کو اہم فائدے پہنچ سکتے ہیں۔ (خاتونِ اسلام، چوتھی فصل)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب