سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(238) حقوقِ نسواں بل کے خلافِ اسلام پہلو

  • 23608
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1439

سوال

(238) حقوقِ نسواں بل کے خلافِ اسلام پہلو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حقوق نسواں بل 2006ء کے وہ کون سے پہلو ہیں جو خلافِ اسلام ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بل کے درج ذیل پہلو خلافِ اسلام ہیں:

1۔ زنا کی شرعی سزا کو بدل کر 5 سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ مقرر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ حدوداللہ میں ترمیم کا اختیار اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔

2۔ تہمتِ زنا کی سزا کو 5 سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ مقرر کرنا حدوداللہ میں ترمیم ہے۔

3۔ سولہ برس سے کم عمر لڑکی کے ہر زنا کو زنا بالجبر کا نام دے کر اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دینا اسلام کے خلاف ہے۔

4۔ دفعہ 375 کی رُو سے بیوی کی مرضی کے بغیر جماع کرنا زنا بالجبر قرار پاتا ہے جو صریحا خلافِ اسلام ہے۔

5۔ زنا کی بعض صورتوں کو زنا بالجبر کا نام دے کر شرعی سزا سے نکالنا اور انہیں تعزیر میں لے آنا اسلام کے خلاف ہے۔

6۔ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینا خلافِ اسلام ہے۔

7۔ حدود آرڈیننس سے اقدامِ زنا یا مبادیاتِ زنا کی سزاؤں کی منسوخی غیر اسلامی ہے۔

8۔ حدوداللہ کی دیگر قوانین پر برتری کا خاتمہ اسلام سے بغاوت، دستور سے انحراف اور حلف سے غداری ہے۔

9۔ زنا کی شرعی سزا صرف نمائشی ہے، متوازی اور متضاد قانون سازی کے بعد اس پر عمل ہونا ممکن نہیں۔

10۔ شرعی سزاؤں کے معاف کرنے کا اختیار صوبائی حکومت یا صدر کو دینا غیر اسلامی ہے۔

11۔ زنا کے ثبوت کے لیے پانچ گواہ مقرر کرنا غیر اسلامی ہے۔

12۔ ملزم کے اعترافِ جرم کو ثبوت جرم میں تسلیم نہ کرنا اور اسے حدود آرڈیننس سے خارج کرنا غیر اسلامی ہے۔

13۔ لعان کی کاروائی مکمل نہ کرنے پر شوہر کی سزا کا خاتمہ بیوی کو معلق چھوڑ دیتا ہے، یہ غیر اسلامی ہے۔

14۔ ’’لعان کی صورت میں بیوی کا اعتراف اس پر شرعی حد عائد کر دیتا ہے۔‘‘ اس شق کا خاتمہ اسلام کے خلاف ہے۔

ماہ، رواں (جنوری 2007ء) لاہور میں تحفظ حدوداللہ کنونشن منعقد ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے نمائندہ جید علمائے کرام، شیوخ الحدیث، مذہبی جماعتوں کے قائدین اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات شریک ہوئے۔

اس کنونشن کے اعلامیہ میں حقوقِ نسواں ایکٹ کے درج ذیل نکات کو خلافِ شریعت قرار دیا گیا:

1۔ زنا بالجبر کی اصطلاح غیر اسلامی ہے، اسلام میں زنا کی سزا کی تقسیم شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے حوالے سے کی گئی ہے۔

2۔ زنا کی شرعی سزا کو بدل کر پانچ سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ مقرر کرنا خلافِ اسلام ہے، اسلام میں شادی شدہ زانیہ/زانی کی سزا سنگسار کرنا اور غیر شادی شدہ زانیہ/زانی کی سزا سو کوڑے مقرر ہے۔

3۔ زنا کی تہمت کی سزا پانچ سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ کرنا بھی حدوداللہ میں ترمیم ہے۔ شریعت میں اس کے لیے 80 کوڑوں کی حد مقرر ہے۔

4۔ سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے ہر زنا کو زنا بالجبر کا نام دے کر اسے شرعی سزا سے مستثنیٰ کرنا خلافِ اسلام ہے۔

5۔ دفعہ 375 کی رُو سے بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے جماع کرنا زنا بالجبر قرار پاتا ہے جو صریحا خلافِ اسلام ہے۔

6۔ زنا کی بعض صورتوں کو زنا بالجبر کا نام دے کر شرعی سزا سے نکالنا اور انہیں تعزیرات میں لے آنا اسلام کے خلاف ہے۔

7۔ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینا خلافِ اسلام ہے۔ اس جرم کی وہی سزا ہو گی جو شریعت میں زنا کی مقرر کی گئی ہے یعنی شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا اور غیر شادی شدہ زانی کو سو کوڑے لگانا (نہ کہ سزائے موت۔)

8۔ حدود آرڈیننس سے اقدامِ زنا یا مبادیاتِ زنا کی سزاؤں کی منسوخی غیر اسلامی ہے۔

9۔ حدوداللہ کی دیگر قوانین پر برتری کا خاتمہ اسلام سے بغاوت، دستور سے انحراف اور حلف سے غداری ہے۔

10۔ زنا کی شرعی سزا صرف نمائشی ہے، متوازی اور متضاد قانون سازی کے بعد اس پر عمل ہونا ممکن نہیں۔

11۔ شرعی سزاؤں میں کسی کو معافی کا اختیار نہیں، صوبائی حکومت یا صدر کا یہ اختیار حاصل کرنا غیر اسلامی ہے۔

12۔ زنا کے ثبوت کے لیے پانچ گواہ مقرر کرنا غیر اسلامی ہے۔ نیز ملزم کے اعتراف، جرم کو ثبوتِ جرم میں تسلیم نہ کرنا اور اسے حدود آرڈیننس سے خارج کرنا غیر اسلامی ہے۔

13۔ لعان کی کاروائی مکمل نہ کرنے پر شوہر کی سزا کا خاتمہ بیوی کو معلق چھوڑ دیتا ہے، یہ امر غیر اسلامی ہے۔

14۔ "لعان کی صورت میں بیوی کا اعتراف اس پر شرعی حد عائد کر دیتا ہے۔" اس شق کا خاتمہ اسلام کے خلاف ہے۔

15۔ حدود آرڈیننس میں غیر شادی شدہ کی سزا کے لیے "سو کوڑوں تک" کے الفاظ درج ہیں جو شریعت کے خلاف ہے۔ شریعت میں سزا پورے سو کوڑے ہے، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اس میں "تک" کا لفظ استعمال کر کے تحریف کی گئی ہے۔

16۔ دفعہ 496 (ب) میں زنا کی جو تعریف درج ہے وہ شرعی اور عقلی (ہر دو) اعتبار سے غیر جامع ہے۔ اس میں ’’غیر منکوحہ، غیر مملوکہ‘‘ کے الفاظ استعمال ہونے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ مملوکہ عورتوں (لونڈیوں) سے جنسی استمتاع کو جائز قرار دیتے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

حدود و تعزیرات،صفحہ:516

محدث فتویٰ

تبصرے