سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) قربانی کا حکم حُجاجِ کرام سے مختص نہیں

  • 23588
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 837

سوال

(218) قربانی کا حکم حُجاجِ کرام سے مختص نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قربانی صرف حاجیوں کو کرنی چاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کا حکم حاجیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ وہ جہاں کہیں بھی رہ رہے ہوں۔ حج پر کی جانے والی قربانی کو هدى اور نسك کہا جاتا ہے جبکہ حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی کو اضحية کہا جاتا ہے جس کی جمع اضاحی ہے۔ اسی وجہ سے قربانی والی عید کو عید الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔ لہذا یہ بات درست نہیں کہ قربانی کرنے کا حکم صرف حجاج کرام کے لیے ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کہتے ہیں:

قربانی کرنے کا مطلق حکم بھی دوسرے مقام پر موجود ہے:

﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر ﴿٢﴾... سورة الكوثر

’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔‘‘

اس کی عملی تبیین و تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینے میں ہر سال 10 ذوالحجہ کو قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی تاکید کرتے رہے۔

چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی قربانی کرتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بابت جہاں دیگر بہت سی ہدایات دیں، وہاں یہ بھی فرمایا کہ 10 ذوالحجہ کو ہم سب سے پہلے (عید کی) نماز پڑھیں اور اس کے بعد جا کر جانور ذبح کریں، فرمایا:

’’جس نے نماز (عید) سے قبل اپنی قربانی کر لی، اس نے گوشت کھانے میں جلدی کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی۔‘‘(بخاري، العیدین، التکبیر الی العید، مسلم، الاضاحی، ۔۔۔ وقتھا)

اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا حکم ہر مسلمان کے لیے ہے وہ جہاں بھی ہو۔ کیونکہ حاجی تو عیدالاضحیٰ کی نماز ہی نہیں پڑھتے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم غیر حاجیوں کے لیے ہی ہے۔ تاہم یہ واجب نہیں ہے سنتِ مؤکدہ ہے۔ (احسن البیان، تفسیر سورة الحج: 36)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قربانی کے احکام و مسائل،صفحہ:498

محدث فتویٰ

تبصرے