سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(216) حجِ بدل کون کر سکتا ہے؟

  • 23586
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 919

سوال

(216) حجِ بدل کون کر سکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حجِ بدل کرنے والے کے لیے کیا ضروری ہے کہ اس نے پہلے حج کیا ہوا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ لوگ جو کسی جسمانی عذر کی وجہ سے حج نہ کر سکتے ہوں وہ دوسرے شخص سے حجِ بدل کروا سکتے ہیں۔ مثلا ایک شخص انتہائی ضعیف ہے، وہ ضعف کی وجہ سے خود حج نہیں کر سکتا تو اس کی طرف سے حجِ بدل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سوال کیا:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی طرف سے فریضہ حج، جو اُس کے بندوں پر ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو بھی پا لیا ہے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سواری پر بھی بیٹھ سکیں۔ کیا میں اُن کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا:

(نعم)(بخاری، جزاء الصید، الحج عمن لا یستطیع الثبوت علی الراحلة، ح: 1854)

’’ہاں۔‘‘

مگر حجِ بدل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس نے پہلے اپنا فرض حج ادا کر لیا ہو۔ کیونکہ جب وہ وہاں پہنچے گا تو اس پر حج فرض ہو جائے گا، لہذا وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے فرض کی ادائیگی کر لے گا تو پھر دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔ اور ایک سال میں ایک حج ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا کہ وہ شبرمہ نامی آدمی کی طرف سے لبیک کہہ رہا ہے۔ آپ نے پوچھا:

(من شبرمة؟)

’’یہ شبرمہ کون ہے؟‘‘

اس نے کہا: شبرمہ میرا بھائی یا عزیز ہے۔

آپ نے اس سے دریافت کیا:

(حججت عن نفسك؟)

’’تم نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے؟‘‘

اس نے کہا: نہیں۔

آپ نے فرمایا:

(حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة)(ابوداؤد، المناسک، الرجل یحج عن غیرہ، ح: 1811)

’’پہلے اپنا حج ادا کر لو پھر (آئندہ سال) شبرمہ کی طرف سے ادا کر لینا۔‘‘

لہذا حج بدل کے لیے ایسے شخص کو متعین کرنا چاہئے جو خود فرض حج پہلے ادا کر چکا ہو۔ کسی ایسے شخص سے حجِ بدل کروانا بہتر ہے جو حج کرنے کا بہت زیادہ مشتاق ہوا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

حج بیت اللہ کے احکام و مسائل،صفحہ:493

محدث فتویٰ

تبصرے