السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم ایک مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے، اعتکاف کرنے والے بعض لوگ مسجد کی سیڑھیوں کے پاس گفتگو کر رہے تھے جس پر ایک صاحب نے کہا کہ تمہارا اعتکاف ٹوٹ گیا ہے کیونکہ تم مسجد کی حدود سے باہر ہو اور مسجد کی حدود سے باہر بات کرنے سے اعتکاف ختم ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ کیا آدمی کسی ضرورت کے لیے مسجد کی حدود سے باہر نکل سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معتكف (اعتکاف کرنے والے) کو جن امور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع کیا کرتے تھے، ان کے بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"السنة على المعتكف ان لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امرأة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة الا لما لابد منه ولا اعتكاف الا بصوم ولا اعتكاف الا فى مسجد جامع"(ابوداؤد، الصیام، المعتکف یعود المریض، ح: 2473، اسے امام زہری (مدلس) نے عنعن سے بیان کیا ہے۔)
’’اعتکاف کرنے والے کے لیے یہ سنت ہے کہ عیادت نہ کرے مریض کی اور نہ جنازہ کی نماز کے واسطے حاضر ہو (یعنی باہر مسجد کے) اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ عورت سے مباشرت کرے اور نہ کسی کام کے لیے نکلے سوائے ضرورت کے کام (قضائے حاجت وغیرہ) کے لیے اور بغیر روزہ کے اعتکاف درست نہیں ہوتا اور نہ بغیر جامع مسجد کے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب لفظ ’’سنت‘‘ بولتے ہیں تو اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے۔
(ولا يخرج لحاجة الا لما لابد منه) سے معلوم ہوتا ہے کہ معتکف قضائے حاجت کے لیے مسجد کی حدود سے باہر نکل سکتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے:
"وكان لا يدخل البيت الا لحاجة اذا كان معتكفا"(بخاري، الاعتکاف، المعتکف لا یدخل البیت الالحاجة ح: 2029)
’’جب آپ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اعتکاف کر رہے ہوتے تو بلا حاجت گھر داخل نہ ہوتے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کو عبادت کی خاطر جگاتے بھی تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا دخل العشر شد مئزره و احيا ليله و ايقظ اهله"(ایضا، فضل لیلة القدر، العمل فی العشر الاواخر من رمضان، ح: 2024)
’’جب (ماہ رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (اپنی کمر کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔‘‘
جہاں تک معتکف کے گفتگو کرنے کا تعلق ہے تو وہ مسجد کی حدود میں دین و شریعت سے متعلق ہر طرح کی گفتگو کر سکتا ہے، وہ کسی شرعی مسئلے کی افہام و تفہیم کی بات کر سکتا ہے، درس و تدریس کر سکتا ہے اور جمعہ پڑھا سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں وعظ و نصیحت بھی کیا کرتے تھے اور جمعہ کے اجتماع سے بھی خطاب فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ سے مسجد میں آ کر گفتگو بھی کر لیتی تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم فى المسجد و عنده ازواجه فرحن، فقال لصفية بنت حيى: «لا تعجلى حتى انصرف معك»، وكان بيتها فى دار اسامة، فخرج النبى صلى الله عليه وسلم معها فلقيه رجلان من الانصار، فنظرا الى النبى صلى الله عليه وسلم ثم اجازا، وقال لهما النبى صلى الله عليه وسلم:«تعاليا انها صفية بنت حيى»، قالا: سبحان الله يا رسول الله، قال: «ان الشيطان يجرى من الانسان مجرى الدم وانى خشيت ان يلقى فى انفسكما شيئا»(الاعتکاف، زیارة المراة زوجھا فی اعتکافه، ح: 2038)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں (اعتکاف کر رہے) تھے، آپ کے پاس آپ کی ازواج بیٹھی ہوئی تھیں، جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی سے فرمایا: جلدی نہ کرو، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ اُن کا حجرہ دارِ اُسامہ میں تھا۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو انصار کے دو آدمی آپ سے ملے۔ ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ آپ نے فرمایا: ٹھہرو! دھر آؤ! یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہیں۔ انہوں نے عرض کی: سبحان اللہ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمای: شیطان خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے بہت سے نکات نکلتے ہیں۔ مثلا یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر انہیں رخصت کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بات بھی کر سکتا ہے اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے۔ اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آ سکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقتِ نبوی کا بھی ثبوت ملتا ہے اور آپ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے ازالے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بےحد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماء کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کر سکیں، اگرچہ اس کام میں ان میں اخلاص ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم سے استفادہ کرنا ختم ہو جانے کا احتمال ہے۔اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اُس نے فیصلہ دیا ہے اس کی ساری وجوہات اس کے سامنے بیان کر دے تاکہ وہ حاکم پر کوئی غلط تہمت نہ لگا سکے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برا مظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت (نسبت) کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہوتا ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ (فتح الباری)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انصار کے آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد سے باہر ملے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر اُن سے ضروری بات کر لی۔ لہذا معلوم ہوا کہ معتکف اگر مسجد کی حدود سے باہر بھی جائز اور ضروری بات کر لے تو اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔
اوپر بیان ہوا ہے کہ معتکف کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کی بیمار پرسی کرے، البتہ اگر وہ کسی جائز ضروری کام کے لیے معتكف (جائے اعتکاف) سے باہر نکلا ہوا ہو حتی کہ مسجد کی حدود سے بھی باہر ہو تو وہ چلتے چلتے (رُکے بغیر) مریض کا حال پوچھ سکتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كان النبى صلى الله عليه وسلم يمر بالمريض وهو معتكف فيمر كما هو ولا يعرج يسأل عنه(ابوداؤد، الصیام، المعتکف یعود المریض، ح: 2472، یہ روایت ضعیف ہے۔)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں جب بیمار کے پاس سے گزرتے تو ٹھہرے بغیر آپ اس کا حال دریافت کر لیتے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب