سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) سفر میں روزہ

  • 23551
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 736

سوال

(181) سفر میں روزہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عصر حاضر میں جدید ترین مواصلات کی وجہ سے سفر میں اتنی آسانیاں ہو گئی ہیں کہ روزہ رکھنا مشکل نہیں رہا، اندریں حالات سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسافر روزہ رکھ سکتا ہے اور چھوڑ بھی سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

’’لیکن جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔‘‘

صحابہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب برسرِ سفر ہوتے تھے تو کچھ روزے سے ہوتے تھے اور کچھ بغیر روزے کے، مگر روزہ دار غیر روزہ دار پر، یا غیر روزہ دار روزہ دار پر حرف گیری نہیں کرتا تھا۔ (بخاري، الصوم، لم یعب اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم بعضھم بعضا ۔۔، ح: 1947)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی سفر میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے، ابودرداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی کے دنوں میں سفر کیا، اس سفر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کوئی بھی روزے سے نہیں تھا۔ (بخاري، الصوم، ح: 1947)

مسافر کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے اور چھوڑنے کا اختیار ہے تاہم روزہ رکھنے میں مشقت محسوس نہ ہو تو پھر روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اس میں تین فائدے ہیں:

1۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہو جائے گی کہ آپ سفر میں روزہ رکھ لیتے تھے۔

2۔ اس میں انسان کے لیے زیادہ سہولت ہے، کیونکہ رمضان میں تو کام معمول کے مطابق چل رہا ہے، بعد میں روزہ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

3۔ اس سے لگے ہاتھوں ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔

البتہ سفر میں اگر مشقت کا سامنا ہو تو پھر روزہ نہیں رکھنا چاہئے، ایسی حالت میں دوران سفر روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک آدمی کے گرد ہجوم لگا ہوا ہے اور لوگ اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: کوئی روزہ دار ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘(بخاري، الصوم، قول النبی صلی اللہ علیه وسلم لمن ظلل علیه ۔۔ ح: 1946)

اس واقعہ سے عمومی حکم یہ نکلے گا کہ جس آدمی کی بھی حالت اس آدمی کی طرح ہو گی اس کے لیے روزے میں مشقت ہو گی۔

اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ سفر چونکہ اس دور میں بہت آسان ہو گیا ہے اورغالبا روزہ رکھنا مشکل نہیں رہا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھ لیا جائے۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ)

تاہم کسی بھی قسم کے سفر میں روزہ مؤخر کرنے والا شخص گناہگار نہیں ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رمضان المبارک اور روزہ،صفحہ:444

محدث فتویٰ

تبصرے