السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
1۔ خواتین کا گھروں سے نکل کر دین کی تبلیغ کا کام کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟ اقامت دین عورت پر فرض ہے یا نفل ۔؟ کیا صحابیات رضی اللہ عنہن کی زندگی سے ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے گھروں سے نکل کر دین کی اشاعت کا کام کیا ہو۔ فرض یا نفل ہونے کی صورت میں ‘عورت کے لیے یہ کام کرنے کی کیا حدود ہوں گی ۔؟ 2۔آج کے دور میں کئی ایک جماعتوں میں عورتیں بھی ہیں ۔ عورتوں کی ایسی جماعتی سرگرمیوں کا قرآن و سنت میں کیا حکم ہے۔؟ جب کہ قرآن میں خواتین کو گھروں میں ٹک کر رہنے کا حکم ہے۔؟ 3۔موجودہ دور میں دین اور دنیا کی تعلیم بالکل الگ الگ ہے ۔تو کیا عورت کے لیے دنیا کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔؟ جب کہ دنیوی تعلیم کے لیے بہت سی حدود ٹوٹتی ہیں۔ جیسے مخلوط نظام تعلیم،مرد اساتذہ اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہونا۔اور اس کی یہ تاویل کرنا کہ شریعت کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔؟ 4۔ آج کے دور میں عورتیں دینی تعلیم کے لیے گھر سے نکل سکتی ہیں۔? کیا اسلاف(صحابیات،تابعین اور تبع تابعین) میں صرف مرد حضرات ہی بڑے عالم اور فقیہ گزرے ہیں یا خواتین کی بھی کوئی مثال موجود ہے۔؟ 5۔ کیا عورت محرم کے بغیر سفر کرسکتی ہے۔؟ سفر کتنا لمبا ہوتو محرم کی شرط لگے گی۔ ؟ یا ہر چھوٹے بڑے سفر میں محرم کاہونا ضروری ہے ۔؟ 6۔ بہت سی خواتین ایک گاڑی میں ‘نامحرم مردڈرائیور کے ساتھ سفر کریں اور دوران سفر ان میں سے کسی کا بھی محرم ہمراہ نہ ہو“ اس کی کیا شرعی حیثیت ہے ؟ 7۔کیا عورت ڈرائیونگ کرسکتی ہے ۔؟محرم کے بغیر یا محرم کے ساتھ۔؟ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیجیے ۔؟ 8۔ کیاخاتون ملازمت کرسکتی ہے۔ ؟ 9۔ والدین کی بڑھاپے میں خدمت ‘اپنے شادی شدہ بیٹوں پر فرض ہے، یا اپنی بہوﺅں پر یااپنی شادی شدہ بیٹیوں پر؟جب کہ سبھی بیٹے ،بیٹیاں علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہوں ۔؟ 10۔ شادی شدہ خاتون پر اپنے شوہر کی خدمت زیادہ اہم ہے یا اپنے حقیقی والدین کی خدمت ۔؟ براہ کرم !مذکورہ بالا سوالات سے متعلق ‘ہماری تشنگی ختم کرنے میں ہماری رہنمائی فرمادیجیے۔ جزاکم اللہ خیراً الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!تمام قارئین سے گزارش ہے کہ ایک پوسٹ میں صرف ایک سوال ہی بھیجا کریں۔ جزاکم اللہ خیرا آپ کا سوال متعدد اجزاء پر مشتمل ہے ،جن کا جواب بالترتیب حسب ذیل ہے۔ 1۔پہلےیہ ایک قاعدہ یاد رکھیں کہ جو جو امور مردوں کے حق میں ثابت ہیں ،وہ وہ امور عورتوں کے حق میں بھی ثابت ہیں الا یہ کہ تفریق کی کوئی دلیل مل جائے،جیسا جہاد کے حوالے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ یعنی عورتوں پر میدان جہاد میں جا کرلڑنا فرض نہیں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا دعوت الی اللہ اور تبلیغ دین صرف مردوں کے ساتھ مختص ہے یا عورتیں بھی اس میں شریک ہوسکتی ہیں۔ تو اس سلسلے میں قرآن و سنت سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس حکم میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شریک ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ امر بالمعروف،نہی عن المنکر کے حکم پر مبنی تمام نصوص میں عموم پایا جاتا ہے جو مرد اور عورتوں دونوں کو شامل ہیں،اور کسی نص میں بھی مرد اور عورتوں کے درمیان تفریق نہیں پائی جاتی۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی دعوت الی اللہ کا کام فرض ہے،مگر دونوں کا دائرہ عمل مختلف ہو گا، عورت صرف عورتوں میں دعوت کا کام کرے گی، کیونکہ مردوں میں دعوت کا کام کرنے سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ 2۔ عورتوں کی یہ جماعتی سرگرمیاں اگر شریعت کی حدود و قیود میں رہ کر ہوں،اور کسی شرعی حکم کی نافرمانی نہ ہوتی ہو تو ان کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔خصوصاً جب ان سرگرمیوں کا تعلق بھی دعوت الی اللہ سے ہے۔ 3۔ عورت پر دنیوی تعلیم حاصل کرنا کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہے،ہاں البتہ دینی تعلیم کے حصول میں آسانی کی غرض سے حاصل کی جا سکتی ہے، تاکہ بچی میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جائے جس سے وہ دینی تعلیم آسانی سے حاصل کر سکے۔جبکہ دینی تعلیم حاصل کرنا واجب اور ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی عورتوں کو سورہ نور کی تعلیم کی خصوصی ”ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’ علمو انساءكم سورة النور ‘‘ اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو۔ دنیوی تعلیم کے حصول میں اگر شرعی حدود پامال ہوتی ہوں تو بالکل حاصل نہیں کرنی چاہئے ،بچیوں کو ایسے سکولوں میں داخل کروایا جائے ،جہاں عورتوں کا علیحدہ تعلیمی سسٹم ہو۔ اور اس سلسلے میں شریعت کا نفاذ نہ ہونے کی تاویل پیش کرنا باطل اور گمراہ ذہن کی علامت ہے۔ 4۔ شرعی نصوص میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نہ تو عورتوں کو بالکل بے محابہ میدان عمل میں آنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان کو ہر قسم کے معاملات سے روکتا ہے ،بلکہ ان کی صنفی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے قیود و شرائط کے ساتھ انہیں ان تمام کاموں کی اجازت دیتا ہے جن کی انہیں دنیوی یا اخروی اعتبار سے ضرورت ہے۔ تعلیم کی ضرورت ایک مسلمہ ضرورت ہے، کیونکہ جہالت تمام برائیوں کی جڑ ہے اور علم تمام کمالات کا سرچشمہ ہے، انسان بغیر علم کے نہ تو اپنی زندگی کو صحیح طے کرسکتا ہے اور نہ اپنی آخرت کی تیاری کرسکتا ہے، کیونکہ نجات کے لئے عمل ضروری ہے اور عمل کا پہلا زینہ علم ہے، اور شریعت کے احکامات، عبادات و معاملات میں مردو عورت کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ دونوں ہی اپنے کردہ اور ناکردہ کے جوابدہ ہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ عمل کے لئے جس طرح مردوں کے لئے علم ناگزیر ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ اب یہ مختلف احوال و ظروف پر مبنی ہے کہ اگر ایک تعلیم کا بندوبست نہ ہو سکے تو شرعی حدود و قیود کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی دوسری جگہ بھی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسلاف کے زمانہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ متعدد اہل علم اور فقیہہ خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ خیر القرون ہی کے زمانہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو بہت سی فقیہہ اور حدیث نبوی کو نقل کرنے والی صحابیات کے نام ہمیں صفحۂ تاریخ میں ملتے ہیں، حضرت عائشہ کا علمی مقام تاریخ میں مسلم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ میری وحی کا آدھا علم میرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اور آدھا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیکھو، ان کے علاوہ اور صحابیات مثلاً دیگر ازدواج مطہراتؓ، حضرت ام سلیمؓ، حضرت ام حرامؓ ، حضرت ام عطیۃؓ ، حضرت ام کرزؓ ، حضرت ام شریکؓ، حضرت ام الدرداء ؓ، حضرت ام خالدؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت فاطمہؓ بنت قیس، حضرت بسرۃ ؓ وغیرہ کے نام علم و فقہ اور روایت حدیث میں نمایاں نظر آتے ہیں، اسی طرح ہر زمانہ میں عورتیں علم و فضل سے وابسہ رہی ہیں، صاحب ’’صنفوۃ الصفوۃ‘‘ نے علم و فضل اور جہاد سیاست میں عورتوں کی خدمات پر مستقل عنوان قائم کرکے ان کے خدمات کو مفصل بیان کیا ہے، علامہ ابن خلکان نے ’’شہرہ بنت ابی نصر (متوفہ ۵۷۴ھ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بہت ہی جید عالمہ تھیں، انہوں نے بڑے بڑے علماء اور محدثین سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت سے تشنگان علوم نے استفادہ کیا، علامہ مقریزی نے ’’نفح الطیب‘‘ میں عائشہ بنت احمد قرطبیہ (متوفیہ ۴۰۰ھ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ اندلس میں علم، فہم، ادب، شعر اور فصاحت میں کوئی ان کے برابر نہیں تھا، فقہ حنفی کی مشہور و متداول کتاب ’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ کی وجہ تصنیف یہ ہے کہ ایک بہت بڑے عالم اور محدث علاء الدین سمر قندی کی دختر فاطمہ بھی بہت بڑی عالمہ اور فقیہہ تھیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت ہی خوبصورت بھی تھیں، بڑے بڑے علماء اور سلاطین نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے کسی کو قبول نہ کیا بلکہ یہ شرط رکھی کہ سارے علماء فقہ میں ایک کتاب تصنیف کریں جن کی کتاب مجھے پسند آئے گی میں ان سے نکاح کرلوں گی، چناں چہ علامہ کا سانی ؒ کی کتاب بدائع الصنائع انہیں پسند آگئی تو انہوں نے ان سے نکاح کرلیا۔ امام ابو جعفر طحاوی کی کتاب ’’طحاوی‘‘ کا املاء خود ان کی دختر نے کیا جو کہ ایک بڑی عالمہ تھیں۔ 5۔ محرم کے بغیر سفر کرنا حرام ہے ،سفر چھوٹا ہو یا بڑا ،ہر وہ سفر جس پر سفر کا نام صادق آتا ہو ،وہ سفر ہے اور عورت کے اکیلے سفر کرنا ممنوع ہے۔ اسلام نے عورت کی عزت کی حفاظت اورعفت کے لیے سفر میں محرم کی شرط لگائی ہے تا کہ وہ اسے غلط اورشھوانی قسم اورگری ہوئی اغراض کے لوگوں سے محفوظ رکھے اور عورت کی کمزوری پر سفرمیں معاونت کرے جو کہ ایک عذاب کا ٹکڑا ہے اس لیے عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ : ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس صحابی کو جہاد چھوڑ کربیوی کے ساتھ جانے کا کہا جو کہ سفر میں محرم کے وجوب پر دلالت کرتا ہے حالانکہ اس صحابی کام ایک غزوہ کے لیےنام لکھا جاچکا تھا ۔ اورپھر عورت کا وہ سفر بھی حج کے ساتھ اطاعت اوراللہ تعالی کے قرب کےلیے تھا نہ کہ سیروسیاحت اورتفریح کی غرض سے اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ وہ جہاد کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جائے ۔ علماء کرام نے محرم کے لیے پانچ شرطیں لگائيں ہیں کہ محرم میں پانچ شروط کا ہونا ضروری ہے : 1- مرد ہو 2 - مسلمان ہو 3 - بالغ ہو ۔ 4 4 ۔ عاقل ہو 5 - وہ اس عورت پر ابدی حرام ہو مثلاً والد، بھائی ، چچا، ماموں ، سسر، والدہ کا خاوند، رضاعی بھائی وغیرہ ۔ ( وقتی طور پر جو حرام ہے وہ نہيں مثلاً بہنوئی، پھوپھا ، خالو )۔ تو اس بنا پر اس کا دیور اوراسی طرح اس کا چچازاد ، اوراس کا ماموں زاد اس کا محرم نہیں جس کی بنا پراس کا ان کے ساتھ سفر پر جانا جائز نہیں ۔ 6۔ غیر محرم ڈرائور کے ساتھ سفر کرنا انتہائی خطرناک اور حرام عمل ہے،کتنے ہی معزز گھرانے اس سے برباد ہو گئے،اور انہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دوسری جگہ فرمایا:
مذکورہ احادیث اس بات پر دال ہیں کہ عورت کو کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کی اجازت نہیں ہے۔چہ جائیکہ اس کے ساتھ سفر کیا جائے،غیر محرم کے ساتھ سفر کرنا گھر میں خلوت سے زیادہ خطرناک اور گناہ پر ابھارنے والا ہے۔تمام مسلمان بہنوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ 7۔ عورت کے لئے گاڑی چلانا مکروہ اور نا پسندیدہ عمل ہے ،عورتوں کے گاڑی چلانے کے حوالے سے شیخ ابن باز اور شیخ صالح العثیمین کے فتاویٰ پیش خدمت ہیں۔ شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں: " عورت كے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں بہت سارى خرابياں اور نقصانات ہيں ، ان خرابيوں ميں عورت كے ساتھ حرام كردہ خلوت، اور بے پردگى بھى شامل ہے، اور اس كے علاوہ ٹريفک پوليس كے مردوں كے ساتھ اختلاط اور ميل جول بھى، اور اسى طرح بہت سارے ممنوعہ كاموں كا ارتكاب جس كى بنا پر يہ امور حرام كيے گئے ہيں وہ بھى شامل ہيں. شريعت مطہرہ نے حرام كام كى طرف لے جانے والے وسائل اور ذرائع بھى حرام كيے ہيں، اور انہيں حرام شمار كيا ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں اور مومنوں كى عورتوں كو گھروں ميں رہنے اور باہر نہ نكلنے اور پردہ كرنے، اور غير مردوں كے سامنے زيب و زينت كو ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، كيونكہ يہ سب كچھ معاشرے كو فحاشى اور بے حيائى كى طرف لے جاتا ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ايک دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور ایک مقام پر اس طرح فرمايا: ’’ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديں كہ وہ اپنى نگاہيں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زيبائش كو ظاہر نہ كريں مگر وہ جو اس ميں سے ظاہر ہے، اور چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے سينوں پر لٹكا كر ركھيں، اور اپنے خاوندوں، يا اپنے خاوندوں كے والد، يا اپنے بيٹوں، يا اپنے خاوند كے بيٹوں، يا اپنے بھائيوں، يا اپنے بھتيجوں، يا بھانجوں يا ان كى عورتوں، يا اپنى لونڈيوں يا اپنى لونڈيوں، يا جن مردوں كو نكاح كى خواہش نہيں، يا ان بچوں سے جو عورتوں كى پردہ والى اشياء كو نہيں جانتے ان سے اپنى زينت والى جگہيں چھپا كر ركھيں، اور وہ اپنے پاؤں زمين پر مت ماريں تا كہ ان كى پوشيدہ زينت كا علم نہ ہو، اور تم سب اللہ تعالى كى جانب توبہ كرو اے مومنو، تا كہ تم كامياب ہو سكو ‘‘ (النور ( 31 ) اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
تو شريعت مطہرہ نے اس بے حيائى كے كام كى طرف جانے والے سب اسباب اور ذرائع منع كر دئیے ہيں، جس ميں پاكدامن اور غافل عورتوں كو فحش كام كى تہمت لگنے كا خدشہ ہو، اور اس كى سزا بہت زيادہ سخت ركھى ہے؛ تا كہ بے حيائى كے اسباب پھيلنے سے معاشرے كو پاک ركھا جا سكے. اور عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنا بھى اس كى طرف لے جانے والے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، جو كسى پر مخفى نہيں، ليكن شرعى احكام سے جہالت، اور برائى اور منكرات كى طرف لے جانے والے وسائل اور ذرائع كے برے نتيجہ اور انجام سے جہالت، ( جس ميں بہت سارے بيمار دلوں والے پڑے ہوئے ہيں ) اور بے حيائى اور فحاشى سے محبت كرنا، اور غير محرم اور اجنبى عورت كو ديكھ كر لذت حاصل كرنے كى خواہش ركھنا، يہ سب كچھ اس معاملہ اور اس طرح كے دوسرے معاملات ميں بغير علم كے غور خوض كا باعث بنتے ہيں، جس ميں بہت زيادہ خطرات پائے جاتے ہيں. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ايک مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
اور فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا: آپ سے گزارش ہے كہ عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنے كے متعلق وضاحت كريں، اور اس قول كى وضاحت كريں كہ: كسى اجنبى ڈرائيور كے ساتھ سوار ہونے سے عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنا كم نقصان دہ ہے ؟ شيخ رحمہ اللہ نے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے كہا: اس سوال كا جواب مسلمان علماء كے ہاں دو قاعدوں اوراصول پر مبنى ہے: پہلا قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: جو چيز حرام كى طرف لے جانے كا باعث ہو وہ بھى حرام ہے. اس كى دليل اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:
تو اللہ تعالى نے يہاں مشركوں كے معبودوں كو برا كہنے سے منع كيا ہے، (مصلحت بھی يہى ہے ) كيونكہ يہ اللہ تعالى كو سب و شتم كا باعث ہے. دوسرا قاعدہ اور اصول: فساد اور خرابى كو دور كرنا اور روكنا جلب مصلحت ( يعنى مصلحت كو كھينچنے ) پر مقدم ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالىٰ ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى نے شراب اور جوا حرام كر ديا حالانكہ اس ميں نفع بھى تھا حرام اس ليے كيا كہ اس كے ارتكاب سے حاصل ہونے والے فساد اور خرابى كو ختم كيا جا سكے. ان دونوں قاعدوں اور اصول كى بنا پر عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے كا حكم واضح ہو گيا، كيونكہ عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنے ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں جن ميں سے چند ايک درج ذيل ہيں: 1 - حجاب اور پردہ كا اتارنا: اس ليے كہ گاڑى چلاتے وقت چہرہ ننگا كرنا پڑيگا جو كہ فتنہ و فساد اور مردوں كى التفات نظر كا باعث ہے، كيونكہ كسى عورت كى خوبصورتى يا بدصورتى كا اس كے چہرہ سے ہى پتہ چلتا ہے، يعنى جب كسى كو خوبصورت يا بدصورت كہا جاتا ہے تو ذہن فوراً اس كے چہرے كى طرف ہى جاتا ہے، اور جب اس كے علاوہ كسى اور چيز كا ارادہ كيا جائے تو اس كو مقيد كرتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: وہ خوبصورت ہاتھوں والى ہے، يا وہ خوبصورت بالوں كى مالک ہے، يا اس كے پاؤں بہت خوبصورت ہيں، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ اسے چاہنے والوں كا مدار صرف چہرہ ہى ہے. ہو سكتا ہے كوئى شخص يہ كہے: بغير حجاب اتارے اور چہرہ ننگا كيے بھى تو گاڑى ڈرائيو كى جا سكتى ہے، يعنى عورت صرف آنكھوں كے علاوہ باقى چہرے پر كپڑا باندھ لے اور آنكھوں پر سياہ عينک لگا لے. تو اس كا جواب يہ ہے كہ: گاڑى چلانے كا عشق ركھنے والی عورتوں سے يہ خلاف واقع ہے، ميں دوسرے ملک ميں انہيں گاڑى ڈرائيو كرنے كا مشاہدہ كرنے والوں سے سوال كرتا ہوں كہ: اور يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ شروع ميں ايسا كرنا ممكن بھى ہو سكتا ہے، ليكن يہ معاملہ زيادہ دير تک قائم نہيں رہ سكےگا، بلكہ جلد ہى وہى كچھ ہونے لگے گا جو دوسرے ملكوں ميں گاڑى چلانے والى عورتيں كرتى ہيں، جيسا كہ بعض اشياء اور امور ميں ترقى كا يہ طريقہ گزر چكا ہے جنہيں آسان اور چھوٹى سمجھا جاتا رہا ہے، اور پھر اس ميں جدت آنے سے كئى ايک ممنوعہ كام شامل ہو گئے جنہيں تسليم نہيں كيا جا سكتا تھا. 2 - گاڑى چلانے كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ عورت كى حياء ختم ہو جاتى ہے، اور وہ بے شرم و بے حياء ہو جاتى ہے، حالانكہ حياء اور شرم ايمان كا ايک حصہ ہے، ـ جيسا كہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے ـ اور شرم و حياء ہى وہ اخلاق كريمہ ہے جو عورت كى طبيعت چاہتى اور جس كا تقاضا كرتى ہے، اور اسے فتنہ و فساد ميں پڑنے سے محفوظ ركھتى ہے. اس ليے اس ميں ضرب المثل بيان كرتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: ( اپنے كوٹھرى ميں كنوارى لڑكى سے بھى زيادہ شرم و حيا والا ) اور جب عورت سے شرم و حياء ہى چھين لى جائے تو پھر اس كے متعلق مت پوچھو. 3 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: عورت كا گاڑى چلانا عورت كے ليے بكثرت اپنے گھر سے باہر نكلنے كا باعث اور سبب ہے، حالانكہ اس كے ليے گھر زيادہ بہتر ہے ـ جيسا كہ نبى معصوم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے ـ كيونكہ گاڑى ڈرائيو كرنے كا جنون ركھنے والى عورتيں گاڑى چلانے ميں لطف محسوس كرتى ہيں، اس ليے آپ ديكھيں گے كہ وہ اپنى گاڑيوں ميں بغير كسى ضرورت كے ہى ايک جگہ سے دوسرى جگہ گھومتى پھرتى ہيں، كيونكہ انہيں گاڑى چلانے ميں لطف آتا ہے. 4 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس طرح تو عورت بالكل آزاد ہو جائے گى، وہ جہاں چاہے اور جب چاہے اور جيسے چاہے اور جب تک چاہے كسى بھى غرض اور مقصد سے جائے گى، كيونكہ وہ اپنى گاڑى ميں اكيلى ہے، رات كو كسى بھى وقت جائے، يا دن كے كسى وقت جائے، اور ہو سكتا ہے وہ رات كے آخرى حصہ تک بھى باہر رہ سكتى ہے. اور جب لوگ بعض نوجوان لڑكوں كے ايسا كرنے پر تنگ اور پريشان ہيں تو پھر جب نوجوان لڑكياں ايسا كرنے لگيں تو آپ كى حالت كيا ہو گى ؟ اور پورے شہر كے طول و عرض ميں دائيں بائيں جہاں چاہيں جائيں گى اور گھومتى رہيں گى، اور ہو سكتا ہے شہر سے باہر بھى نكل جائيں. 5 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ كام عورت كا اپنے گھر والوں اور خاوند كے خلاف بغاوت كا سبب ہے، اور جب گھر ميں كوئى چھوٹى سى بھى بات ہوئى تو وہ گھر سے نكل كر اپنى گاڑى ميں جہاں اسے اپنے خيال ميں راحت ملتى ہو نكل جائے گى، جيسا كہ بعض نوجوان كرتے ہيں، حالانكہ تحمل و براداشت ميں وہ عورت سے زيادہ قوى ہيں. 6 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ كئى ايک جگہوں پر فتنہ و فساد كا باعث بنےگا: راستے ميں ٹريفک سگنل پر كھڑے ہوتے وقت، پٹرول پمپ پر كھڑے ہونے ميں، چيكنگ پوائنٹ پر كھڑے ہونے ميں، جب كسى ٹريفک قانون كى مخالفت كى تو ٹريفک پوليس كے اہلكاروں كے روكنے پر، گاڑى كے ٹائروں ميں ہوا بھرنے كے ليے كھڑے ہونے ميں، راستے ميں اگر گاڑى ميں كوئى خرابى پيدا ہوئى تو اس وقت كھڑے ہونے ميں تو اس طرح عورت كو اسے ٹھيک كروانے كے ليے مدد دركار ہوگى، تو پھر اس وقت اس كى حالت كيا ہو گى ؟ ہو سكتا ہے اسے كسى ايسے شخص سے پالا پڑ جائے جو گرے ہوئے ذہن كا مالک ہو تو وہ اس كى مشكل دور كرنے ميں اس كى عزت كا سودا كرے گا، اور خاص كر جب وہ عورت زيادہ ضرورتمند ہو. 7 - عورت كے ليےگاڑى ڈرائيو كرنے ميں جو خرابياں پيدا ہوتى ہيں ان ميں يہ بھى شامل ہے كہ: سڑكوں پر رش، يا كچھ نوجوان لڑكوں كو گاڑى ڈرائيو كرنے سے محروم كرنا، حالانكہ وہ اس كے زيادہ حقدار ہيں. 8 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ خرچ اور نفقہ ميں زيادتى كا باعث بنےگا، كيونكہ عورت طبعى طور پر اپنے آپ كو لباس وغيرہ كے متعلق مكمل كرنا پسند كرتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ جب بھى كوئى نئے ڈيزائن اور ماڈل كا لباس آتا ہے تو وہ اپنے پہلے لباس كو پھينک كر نئے ڈيزائن كو خريدنے دوڑ پڑتى ہيں، چاہے وہ اس كے پاس موجود لباس سے برا ہى كيوں نہ ہو. كيا آپ ديكھتے نہيں كہ اس نے ديواروں پر كيا نقش و نگار اور دوسرى اشياء خوبصورتى كے ليے لٹكا ركھى ہيں، اس پر قياس كرتے ہوئے ـ بلكہ ہو سكتا ہے اس سے بھى زيادہ اولىٰ ہو ـ وہ گاڑى جس كو وہ چلاتى ہے جب بھى كوئى نيا ماڈل آئے تو وہ پہلى گاڑى چھوڑ كر نئے ماڈل كى گاڑى خريدنے دوڑ پڑےگى. اور سائل كا يہ قول كہ: اس قول ميں آپ كى رائے كيا ہے:
ميرى رائے يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايک كام ميں نقصان ہے، اور ايك چيز دوسرے سے زيادہ نقصان دہ ہے، ليكن اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ ان ميں سے ايک كا ارتكاب كرنا ضرورى ہے. يہ علم ميں ركھيں كہ ميں نے اس جواب ميں تفصيل كے ساتھ كلام اس ليے كى ہے كہ عورت كے گاڑى ڈرائيو كرنے كے متعلق بہت زيادہ شور و غوغہ كيا جا رہا ہے، اور سعودى معاشرہ جو كہ اپنے دين و اخلاق پر اچھى طرح قائم ہے اس پر عورت كو گاڑى ڈرائيو كرنے كى اجازت دينے كے ليے دباؤ ڈالا جا رہا ہے. اگر يہ دباؤ ايسے دشمن كى طرف سے ہو جو اس ملک كے خلاف گھات لگائے بيٹھا ہے جو اسلام كا قلعہ ہے تو اس سے اس دباؤ اور ايسى اشكالات كا سامنے آنا كوئى تعجب والى بات نہيں، كيونكہ دشمنان اسلام اس ملک كو ختم كرنا چاہتے ہيں. ليكن سب سے زيادہ عجيب بات تو يہ ہے كہ جب ہمارى قوم اور ہمارے شہر اور ہمارى ہى نسل كے لوگ اور ہمارى زبان ميں كلام كرنے والے، جو ہمارى رائے كو اپنا سايہ بنانے والے ہى يہ باتيں كرنے لگيں، ايسے لوگ جو كفار ممالک كى مادى اور دنياوى ترقى كو ديكھ كر اسے اپنانے كى پورى كوشش كر رہے ہيں، انہيں ان كے اخلاق پسند آنے لگے ہيں جس سے انہوں نے اپنے آپ كو فضيلت كى تمام حدود و قيود كو آزاد كر كے بے حيائى اورر ذيل قيود كو اپنانے كى پورى كوشش كرنى شروع كر دى ہے. اھـ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى. ليكن جن ممالک ميں عورت كو گاڑى چلانے كى اجازت ہے وہاں مسلمان عورت كو مندرجہ بالا اسباب كى بنا پر حتى الامكان ايسا كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے. ليكن كسى شديد ضرورت كے وقت مثلاً كسى مريض اور زخمى كو ہاسپٹل لےجانے، يا كسى حرام سے فرار كے ليے مسلمان عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں كوئى حرج نہيں، تو اگر مدد كے ليے كوئى مرد موجود نہ ہو تو پھر ايسے حالات ميں عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں كوئى حرج نہيں. اور كچھ ايسے حالات اور صورتيں اور بھى ہيں مثلاً: وہ عورتيں جن كے ليے كام كاج كے ليے نكلنا ضرورى ہے، نہ تو اس كا خاوند ہو، اور نہ ہى باپ يا كوئى ولى جو اس كى كفالت كرے، اور نہ ہى اسے سركارى وظيفہ اور اخراجات ملتے ہوں جو اس كا خرچ پورا كريں، اور نہ ہى اسے كوئى ايسا كام ملتا ہو جو وہ اپنے گھر بيٹھ كر ہى كر سكے، مثلاً انٹرنيٹ كے كچھ كام اور وہ عورت كام كے ليے گھر سے باہر نكلنے پر مجبور ہو تو وہ آنے جانے كے ليے ايسے وسائل استعمال كر سكتى ہے جس ميں كم خطرہ ہو. اور ہو سكتا ہے عام مواصلات اور سفر كے وسائل عورتوں كے ليے خاص ہوں، يا پھر كئى ايک عورتوں كو پہنچانے كے ليے ڈرائيور كرايہ پر حاصل كيا جا سكتا ہو جو انہيں كام يا يونيورسٹى پہنچائے، اور كرايہ پر پرائيويٹ گاڑياں بھى حاصل كى جا سكتى ہيں ( جس كے پاس مالى استطاعت ہو ) يہ اشياء عام بسوں ميں سفر كے مقابلہ ميں اس كے ليے زيادہ بہتر ہوسكتى ہيں، ہو سكتا ہے بسوں ميں اسے اہانت و تذليل كا سامنا كرنا پڑے، اور اس پر زيادتى كى جائے، تو وہ اجنبى ڈرائيور كے ساتھ خلوت كيے بغير كرايہ كى گاڑى استعمال كر سكتى ہے. اور اگر آخر ميں اسے مجبوراً شديد ضرورت كے وقت جن سےمفر نہيں اسے گاڑى ڈرائيو كرنا بھى پڑے تو وہ شرعى اور كامل پردہ ميں رہتے ہوئے اور اللہ كا تقوىٰ اختيار كرتے ہوئے گاڑى ڈرائيو كرے. مجبورى اور ضرورت كى حالتيں اوپر بيان كى جا چكى ہيں. اور اس كے متعلق اسے اپنےملک كے ثقہ علماء كرام كے فتاوىٰ جات سے مدد لينى چاہيےـ متساہل علماء كے فتاوىٰ جات سے نہيں ـ بلكہ وہ علماء جو شريعت كو سمجھتے ہيں، اور ملک كے حالات كا بھى علم ركھتے ہيں. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ہم اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. 8۔ عورت کو بلا ضرورت ملازمت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے وہ امور خانہ داری اور اولاد کی تربیت جیسے اہم اور حقیقی فرائض سے غافل ہو جائیں گی۔ جس کا نقصان اس وقتی ملازمت کے فوائد سے زیادہ ہے۔اگر کسی عورت کا کوئی سہارا یا ذریعہ معاش نہ ہو تو مجبوری کی حالت میں اس کے لئے ملازمت کی کچھ گنجائش موجود ہے،لیکن کسی بھی قسم کی ملازمت میں شرط یہ ہے کہ شرعی حدود وقیود نہ ٹوٹتی ہوں،مثلاً مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو ،بے پردگی نہ ہوتی ہو اور اس کا دائرہ عمل خواتین میں ہی ہو کیسے گرلز سکول یا مدرسے میں پڑھانا وغیرہ وغیرہ،اور اگر یہ حدود ٹوٹتی ہوں تو کوئی ملازمت بھی جائز نہیں ہے۔ 9۔ والدین کی خدمت بیٹوں اور بیٹیوں دونوں پر فرض ہے ،اگرچہ مرد ہونے کے ناطے بیٹوں پر زیادہ حق ہے۔رہا بہو کا معاملہ تو شرعاً اور قانوناً بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے، لیکن اخلاقی طور پر اگر وہ اپنی ساس کی خدمت کرے تو اس کے لیے بہتر اور باعث اجر ہو گا۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کا ادب واحترام کریں تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا عزت واحترام بڑھتا ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین کی طرح سمجھیں، کوئی فرق نہ کریں تو ہزاروں مسائل جو آجکل کافی گھروں میں چل رہے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔ گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی زیادہ وجوہات جو ہماری پاس آتی ہیں، وہ یہی ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین کی طرح نہیں سمجھتے ہیں، جس کی بنا پر ایک دوسرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور یہ معاملات بڑھتے بڑھتے بعض اوقات میاں بیوی میں علیحدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں، پھر دیکھیں زندگی کتنی خوشگوار گزرتی ہے۔ 1۔۔ اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں کے حقوق بیان فرما دئیے ہیں جن میں شوہر اور والدین کی حقوق کی تفصیلات بھی موجود ہیں،میرے خیال میں ان کے درمیان اس طرح فرق کرنا مناسب نہیں ہے کہ کس کا حق افضل ہے ،بلکہ انسان کو حسب استطاعت تمام کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہناچاہئیے۔ہاں البتہ اگر کسی مقام پر آ کر دونوں کے حقوق باہم ٹکرا جائیں تو اکثر اہل علم کے نزدیک خاوند کا حق زیادہ ہے جب تک وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہیں دیتا،کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری حرام ہے،اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے روکنا بھی اللہ کی نافرمانی ہے کیونکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،ابن حجر الہیتمی، ابن قدامہ اور امام احمد کا یہی موقف ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثجلد 09 ص |