السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی کی وفات پر اس کے رشتہ داروں کو کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کے رشتہ دار تقدیر پر صبر و رضا کا مظاہرہ کریں کہ صبر کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ بڑی نوازشات کرتا ہے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے، وہ قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اتقى الله واصبري)(بخاري، الجنائز، زیارة القبور، ح: 1283)
’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘
اولاد کی وفات پر صبر کرنا تو بڑے اجروثواب کا باعث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ايما امرأة مات لها ثلاثة من الولد كانوا لها حجابا من النار» قالت امرأة: واثنان؟ قال: «واثنان»(بخاري، الجنائز، فضل من مات لہ ولد فاحتسب، ح: 1249)
’’جس عورت کے تین بچے فوت ہوئے وہ اس کے لیے آگ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ ایک عورت نے پوچھا: دو کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: دو بھی (دو کا بھی یہی حکم ہے۔)‘‘
نیز "انا لله وانا اليه راجعون" (ہم بھی اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) پڑھیں اور یہ دعا مانگیں جو حدیث میں آتی ہے:
(اللهم اجرنى فى مصيبتى واخلف لى خيرا منها)(مسلم، الجنائز، ما یقال عند المصیبة، ح: 918)
’’اللہ! مجھے میری تکلیف پر اجر عطا کر اور مجھے اس کا نعم البدل عنایت کر دے۔‘‘
عورت اپنے بچے یا کسی رشتہ دار کی وفات پر تین دن تک سوگ منا سکتی ہے۔ البتہ شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منائے۔ ارشاد نبوی ہے:
(لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا)(بخاري، الجنائز، احداد المراۃ علی غیر زوجھا، ح: 1280)
’’جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی مرنے والے کا تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے۔ البتہ اپنے خاوند کا چار ماہ دس دن تک سوگ کرے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب