سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(171) ایک منٹ کی خاموشی

  • 23541
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1031

سوال

(171) ایک منٹ کی خاموشی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔‘‘ ’’دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔‘‘ یہ اور اس طرح کے جملے بعض دفعہ اخبارات و رسائل میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ کسی المیہ یا رنج و غم کی وجہ سے لوگ مذکورہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا شرعا درست ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ شریعت میں خاموشی کا موقع و محل کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غم اور سوگ کے اظہار کا مذکورہ طریقہ شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ حتی کہ اگر کسی نے خاموش رہنے کی نذر بھی مان لی ہو تو اس کا پورا کرنا بھی جائز نہیں۔ حالانکہ عام حالات میں نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک آدمی کھڑا ہے۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا ہی رہے گا۔ نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں جائے گا، نہ ہی بات کرے گا اور یہ کہ وہ روزہ رکھے گا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اسے کہیں کہ بات کرے، سائے میں چلا جائے، بیٹھ جائے، ہاں روزہ پورا کر لے۔‘‘ (بخاري، الایمان والنذور، النذر فیما لا یملک ۔۔ح: 6704)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس دو شخص آئے، ایک نے تو سلام کیا جبکہ دوسرے نے نہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اس کی کیا وجہ ہے؟ لوگوں نے کہا: اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

(كلم الناس وسلم عليهم)

’’لوگوں سے سلام و کلام کرو۔‘‘

ایسا کرنا تو ایک عورت (مریم علیہا السلام) کے لیے ہی تھا۔

(تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت﴿ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَـٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا ﴿٢٦﴾( سورة مریم، 269/4) تفسیر طبری 742/1، اس کی سند میں ابو اسحاق سبیعی (مدلس) راوی نے عنعن سے بیان کیا ہے۔ محمد ارشد کمال)

معلوم ہوا کہ چپ کا روزہ یا مکمل خاموشی اختیار کرنے کا جابطہ مقرر کرنا ہماری شریعت میں جائز نہیں۔

جہاں تک تعلق ہے عمومی حالات میں خاموشی اختیار کرنا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی باتوں سے خاموشی اختیار کی جائے جو حرام، بے کار اور بے فائدہ ہیں۔ یہی زبان کی حفاظت ہے ورنہ زبان تو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایمان و اسلام، تلاوت و ذکر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، درس و تدریس، اہل و عیال اور دوست و احباب سے خوش کلامی سب امور اس کے ذریعے سر انجام پاتے ہیں، جس طرح بعض مواقع پر بولنا جائز نہیں مثلا خطبہ جمعہ خاموشی سے سننا چاہئے۔ اسی طرح بعض اوقات خاموش رہنا بھی جائز نہیں ہوتا مثلا گواہی کے وقت۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَكتُمُوا الشَّهـٰدَةَ وَمَن يَكتُمها فَإِنَّهُ ءاثِمٌ قَلبُهُ ...﴿٢٨٣﴾... سورة البقرة

’’اور گواہی نہ چھپاؤ، جو اِسے چُھپائے گا تو اس کا دل گناہگار ہو گا۔‘‘

لہذا بے مقصد باتوں سے خاموشی اختیار کرنی چاہئے جبکہ بامقصد گفتگو سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

(من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه)(ترمذي، الزھد، ح: 2317، ابن ماجہ، ح: 3976)

’’آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو اُس کے مقصد کی نہیں۔‘‘

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من كان يؤمن بالله واليوم الاخر فليقل خيرا او ليصمت)(بخاري، الادب، من کان یؤمن باللہ ۔۔، ح: 6018)

’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:432

محدث فتویٰ

تبصرے