سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(170) ایک ایک کفن اور قبر میں دو دو مردے؟

  • 23540
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2085

سوال

(170) ایک ایک کفن اور قبر میں دو دو مردے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض قبرستانوں میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ کیا یہ شرعا درست ہے کہ ایک قبر میں ایک سے زائد لاشوں کو دفن کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک قبر میں ایک مردہ ہی دفن کیا جانا چاہئے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طریقہ تھا۔ البتہ اگر میتیں کسی وجہ سے زیادہ ہو گئی ہوں اور زیادہ قبریں بنانے یا زیادہ کفنوں کا انتظام کرنا مشکل ہو تو ضرورتا ایک ایک کفن دو دو مُردوں کو پہنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین مردے بھی دفن کیے جا سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخاری (الجنائز) میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:

باب دفن الرجلين والثلاثة فى قبر واحد (دو یا تین آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنے کا بیان)۔ اس باب کے تحت امام موصوف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہدائے اُحد کے بارے میں عمل مبارک ذکر کیا ہے کہ آپ دو دو شہیدوں کو ایک ایک قبر میں دفن کرتے تھے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے دو دو شہید ایک ہی کپڑے میں لپیٹتے اور پوچھتے:

«أيهما أكثر أخذاً للقرآن»، فإذا أشـير إلى أحدهما قدمه في اللحد وقال: «انا شهيد على هؤلاء» وامر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلهم»(بخاري، الجنائز، من یقدم فی اللحد، ح: 1347)

’’ان میں قرآن کس نے زیادہ یاد کیا ہے؟ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو لحد میں اسی کو آگے بڑھاتے اور فرماتے جاتے کہ میں ان پر گواہ ہوں۔ آپ نے خون سمیت انہیں دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایک کفن دو آدمیوں کو دیا جا سکتا ہے اور اسی طرح ایک قبر میں دو میتوں کو بھی دفن کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑی تکریم ہوتی حتی کہ اس کے فوت ہونے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبر میں آگے یعنی قبلہ کی جانب رکھتے تھے۔

یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے دریافت فرماتے: (أيهما أكثر أخذاً للقرآن)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میدانِ جنگ میں شہید ہونے والوں کو غسل نہیں دیا جاتا۔ البتہ شہداء کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اُحد کے شہداء پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وقت گزرنے کے بعد نماز جنازہ پڑھی تھی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:431

محدث فتویٰ

تبصرے