سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169) جنازہ آتے دیکھ کر کھڑا ہونا یا بیٹھے رہنا؟

  • 23539
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3661

سوال

(169) جنازہ آتے دیکھ کر کھڑا ہونا یا بیٹھے رہنا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنازہ آتے دیکھ کر کھڑا ہونا جائز ہے یا شریعت میں اس کی ممانعت پائی جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بخاری و مسلم کی بہت سی احادیث ایسی ہیں جن میں جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا بیان اور حکم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی کھڑے ہونے کا حکم فرماتے۔ جنازے کے ساتھ جانے والوں کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے کہ جب تک جنازہ نیچے نہ رکھ دیا جائے تب تک نہ بیٹھیں۔

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا رأيتم الجنازة فقوموا حتى تخلفكم)(بخاري، الجنائز، القیام للجنازة، ح: 1307)

’’جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور کھڑے رہو یہاں تک کہ جنازہ تم سے آگے نکل جائے۔‘‘

مذکورہ راوی سے ہی روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إذا رأى أحدكم جنازة فإن لم يكن ماشيا معها فليقم حتى يخلفها أو تخلفه أو توضع من قبل أن تخلفه)(ایضا، متی یقعد اذا قام للجنازة، ح: 1308)

’’جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو اگر اس کے ساتھ نہیں چل رہا ہے تو کھڑا ہی ہو جائے تاآنکہ جنازہ آگے نکل جائے یا آگے جانے کی بجائے خود جنازہ رکھ دیا جائے۔‘‘

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:

ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا! آپ نے فرمایا:

(اذا رأيتم الجنازة فقوموا) (ایضا، من قام لجنازة یھودی، ح: 1311)

’’جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔‘‘

ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

(اليست نفسا) (ایضا، ح: 1312)

’’کیا یہودی کی جان نہیں ہے۔‘‘

یعنی وہ بھی تو انسان ہے ایسی ہی صورت حال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان الموت فزع فاذا رأيتم الجنازة فقوموا)(مسلم، الجنائز، القیام للجنازة، ح: 960)

’’موت تو بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے تو جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے اور موت کو یاد کرنے کے لیے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانا چاہئے۔ مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر ائمہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانا چاہئے۔ اور جن احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کراما رضی اللہ عنھم کے جنازہ دیکھ کر بیٹھے رہنے کا ذکر ہے، ان احادیث کو انہوں نے جواز پر محمول کیا ہے۔ یعنی کھڑا ہونا ضروری تو نہیں البتہ مستحب (بہتر) ہے۔

امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کی احادیث درج ذیل احادیث سے منسوخ ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"قام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قعد"(ایضا، نسخ القیام للجنازة، ح: 962)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہوتے تھے۔ پھر بیٹھنے لگے۔‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے فرماتے ہیں:

(راينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فقمنا و قعد فقعدنا) (ایضا)

’’ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہو جاتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے اور جب آپ بیٹھے رہنے لگے تو ہم بھی بیٹھے رہنے لگے۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے:

"كان يقوم فى الجنائز ثم جلس بعد"(مؤطا امام مالک، الجنائز، الوقوف للجنازة، القیام للجنازة۔۔، ح: 549)

’’آپ پہلے جنازے کی خاطر کھڑے ہوتے تھے بعد ازاں بیٹھے رہنے لگے۔‘‘

مسند احمد کی ایک حدیث میں قدرے تفصیل بھی بیان ہوئی ہے:

(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا بالقيام فى الجنازة ثم جلس بعد ذلك وامرنا بالجلوس) (82/1)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کی خاطر کھڑا ہونے کا حکم دیا تھا بعد میں آپ بیٹھنے لگے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔‘‘

اس قسم کی احادیث کی روشنی میں مولانا صادق سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اب جنازہ دیکھ کر اٹھنا سنت نہیں۔ (مسلمان کا سفر آخرت، ص: 206)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق ممکن ہے اور دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو سکتا ہے یعنی جنازہ دیکھ کر کھڑا ہونا ضروری تو نہیں البتہ کھڑا ہونا بہتر ہے۔ فرماتے ہیں:

(فيكون الامر به للندب والقعود للجواز ولا يصح دعوى النسخ فى مثل هذا انما يكون اذا تعذر الجمع بين الاحاديث ولم يتعذر والله اعلم) (مسلم مع شرح النووي 310/1)

’’امر (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے رہنے کا حکم) مندوب ہونے کے لیے ہے (نہ کہ وجوب کے لیے) اور آپ کا بیٹھے رہنا جواز بیان کرنے کے لیے ہے۔ اس طرح کی احادیث میں منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں۔ نسخ تو وہاں قرار دیا جائے گا جہاں احادیث میں تطبیق نہ ہو سکتی ہو اور یہاں احادیث میں تطبیق متعذر (محال اور ناممکن) نہیں، ‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:428

محدث فتویٰ

تبصرے