السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مُردے پر تیسرے دن کے بعد رونا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو دیگر مسلمانوں (میت کے اعزہ و اقارب وغیرہ) کے لیے حکم ہے کہ وہ صبر کریں۔ جزع فزع کرنا، گریبان پھاڑنا اور پیٹنا منع ہے۔ میت پر (سوگ کرنے کے لیے) تین دن سے زیادہ رونے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ ہاں اگر بعد میں بھی بے اختیار رونا آ جائے تو یہ منع نہیں ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آلِ جعفر کو یہ فرما کر چلے گئے کہ آپ تین دن بعد آئیں گے۔ تین دن بعد آ کر فرمایا:
(لا تبكوا علي اخي بعد اليوم)(ابوداؤد، الترجل، في حلق الراس، ح: 4192)
’’آج کے بعد میرے بھائی کو نہ رونا۔‘‘
آنکھوں سے آنسو جاری ہونا اور دل کا پریشان ہونا خلاف شریعت نہیں بلکہ شفقت و رحمت اور نرم دلی کی دلیل ہے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے، جو کہ ابراہیم کے رضاعی باپ تھے، پاس آئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو گود میں لے کر بوسہ دیا اور پیار کیا۔ بعد میں ہم دوبارہ گئے تو ابراہیم آخری سانس لے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بھی روتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
(يا ابن عوف انها رحمة)
’’ابن عوف! یہ تو شفقتِ (الہٰی) ہے۔‘‘
دوسری مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
(إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون)(بخاري، الجنائز، قول النبی صلی اللہ علیه وسلم انا بک لمحزونون، ح: 1303)
’’آنکھوں سے آنسو بیتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے مگر ہم صرف وہ بات کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہے۔ ابراہیم! ہم تیری جدائی سے بہت غمگین ہیں۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھی روتی ہوئی ایک عورت کے پاس سے گزرے۔ آپ نے اس سے فرمایا:
(اتقى الله واصبري) (بخاري، الجنائز، زیارة القبور، ح: 1283)
’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب