السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے خالو فوت ہوئے تو خالہ جان کو سوگ کے سلسلے میں عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہیں مختلف باتیں سننے کو ملیں، یہ کہ آپ غیر محرم سے بات نہیں کر سکتیں، بغیر پردہ کے کسی کے سامنے نہیں آ سکتیں۔ (یاد رہے کہ خالہ کی عمر 50-55 سال کے درمیان ہے) آپ کسی صورت میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں، کسی غیر محرم کی تقریر یا تلاوت نہیں سن سکتیں، کسی غمی خوشی میں شریک نہیں ہو سکتیں وغیرہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ وضاحت کریں کہ ان باتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز کپڑوں کے متعلق بھی بتا دیں کہ نئے کپڑے یا صاف ستھرے کپڑے پہننے یا صاف ستھرا رہنے کی کوئی ممانعت تو نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زمانہ جاہلیت میں عربوں نے عورتوں پر ان کی عدت اور سوگ کے دوران روح فرسا اور تکریم انسانیت کے منافی بےجا پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ اسلام نے ان خود ساختہ پابندیوں کو ختم کر دیا۔ احداد (سوگ منانے) کی جو بھی پابندی عائد کی اس میں انسانی وقار کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔ اس سلسلے کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک خاتون اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری لڑکی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ نہیں، دو تین مرتبہ (آپ نے یہ فرمایا)۔ ہر مرتبہ یہ فرماتے تھے کہ نہیں! پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (شرعی عدت) چار مہینے اور دس دن ہی کی ہے۔ جاہلیت میں تو تمہیں سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی (تب کہیں عدت سے باہر ہوتی تھیں)۔ حمید نے بیان کیا کہ میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ "سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا تو وہ ایک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی۔ سب سے بُرے کپڑے پہنتی اور خوشبو کا استعمال ترک کر دیتی۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا، پھر کسی چوپائے گدھے یا بکری یا پرندہ کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہر آنے کے لیے اس پر ہاتھ پھیرتی۔ ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ وہ کسی جانور پر ہاتھ پھیر دے اور وہ مر نہ جائے۔ اس کے بعد وہ نکالی جاتی اور اسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اب وہ خوشبو وغیرہ کوئی بھی چیز استعمال کر سکتی تھی۔
(بخاري، الطلاق، تحد المتوفی عنھا اربعة اشھر و عشرا، ح: 5336، 5337)
2۔ ایک حدیث میں ہے: ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرمہ (زمانہ عدت میں) نہ لگاؤ۔ (زمانہ جاہلیت میں) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا، یا (یہ فرمایا کہ) بدترین گھر میں وقت (عدت) گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی، (تب عدت سے باہر آتی۔) پس سرمہ نہ لگاؤ۔ یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں اور میں نے زینب بنت ام سلمہ سے سنا، وہ ام حبیبہ سے بیان کرتی تھیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ (ایضا، الکحل للحادة، ح: 5338،5339)
3۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتیں، نہ خوشبو کا استعمال کرتیں، اور نہ رنگا ہوا کپڑا پہنتی تھیں۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جسے بُننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ (ایضا، القسط للحادة عند الطھر،ح: 5341)
4۔ زینب بنت ابوسلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ام حبیبہ کے پاس گئی۔ جب ان کے باپ ابوسفیان فوت ہو گئے تو انہوں نے خوشبو منگوا کر ایک لڑکی کو لگائی، پھر اپنے گالوں پر لگائی اور کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی حالت نہیں مگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، کہ اُس عورت کو حلال نہیں جو اللہ اور قیامت کو مانتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی مردے کے غم میں سوگ کرے اور اپنا سنگار چھوڑ دے مگر اپنے خاوند کی عدت پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرے۔ پھر زینب نے کہا: میں زینب بنت حجش کے پاس گئی، جب ان کے بھائی (عبیداللہ بن حجش) فوت ہو گئے۔ انہوں نے خوشبو منگوا کر لگائی۔ اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، مگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر فرماتے تھے: اس عورت کو جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لائے تین دن سے زیادہ کسی مردے پر سوگ کرنا درست نہیں ہے مگر خاوند پر چار مہینے دس دن تک۔ زینب نے کہا: میں نے اپنی ماں ام سلمہ سے سنا، وہ فرماتی تھیں: ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بولی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا اور اس کی آنکھیں دُکھتی ہیں، کیا اسے سرمہ لگا دیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ دوبار فرمایا، ہر بار یہی فرمایا کہ نہیں (یعنی سرمہ لگانے کی اجازت نہ دی مگر دوسری حدیث میں اجازت ہے کہ رات کو لگا لے دن کو پونچھ ڈالے)
(ابوداؤد، الطلاق، احداد المتوفی عنھا زوجھا، ح: 2299)
5۔ مالک بن سنان کی بیٹی فریعہ، جو ابوسعید خدری کی بہن ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پائی آئی اور آپ سے پوچھنے لگی: کیا میں اپنے کنبے میں چلی جاؤں جو قبیلہ بنی خدرہ میں ہے، اس لیے کہ اس کا خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کو ڈھونڈنے نکلا تھا، غلاموں نے اسی کو قدوم (جگہ) میں مار ڈالا۔ فریعہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے پوچھا کہ میرے خاوند نے تو میرے واسطے کوئی ذاتی مکان نہیں چھوڑا اور نہ نان و نفقہ ہے، یعنی جس مکان میں رہتی ہوں وہ دوسرے کا ہے۔ میرے خاوند کی ملک نہیں اور نہ روٹی کپڑا کچھ اس نے چھوڑا، تو اب میں عدت کیونکر اس مکان میں رہ کر پوری کروں؟ اس صورت میں اپنے کنبے کے لوگوں میں چلی جاؤں؟ فریعہ نے کہا: آپ نے فرمایا: ہاں اپنے کنبہ میں چلی جا۔ فریعہ نے کہا: پھر میں وہاں سے نکل کر مسجد میں آئی یا حجرہ میں تو آُ نے مجھے بلایا اور فرمایا: تم نے کیا بیان کیا؟ میں نے پھر اپنے شوہر کے مارے جانے کا سارا قصہ بیان کیا اور نان و نفقہ نہ چھوڑنے کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: اسی گھر میں رہ جب تک عدت پوری نہ ہو۔ فریعہ نے کہا: پھر میں نے اسی گھر میں چار مہینے دس دن پورے کیے۔ جب عثمان بن عفان کی خلافت ہوئی، انہوں نے میرے پاس آدمی بھیجا اور مجھ سے پوچھا۔ میں نے یہ سارا مسئلہ بیان کیا (جیسا آپ نے مجھے حکم کیا تھا۔) عثمان نے اس کی پیروی کی اور ویسا ہی حکم کیا۔ (ایضا، فی المتوفي عنھا تنقل، ح: 2300)
6۔ ارشاد نبوی ہے:
(المتوفى عنها زوجها لا تلبس المعصفر من الثياب ولا الممشقة ولا الحلى ولا تختضب ولا تكتحل) (ایضا، ح: 2304)
’’جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے وہ عورت کسم کے رنگ کا کپڑا، گیرو کا کپڑا اور زیور نہ پہنے، نہ ہاتھ پاؤں اور بالوں کو مہندی لگائے اور نہ سرمہ ہی لگائے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے جہاں سوگ کی پابندیوں کا پتا چلتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ:
جو عورت سوگ میں ہو وہ بوقت ضرورت غیر محرم سے بھی بات کر سکتی ہے جیسا کہ حدیث 5 میں فریعہ رضی اللہ عنہا کا عمل موجود ہے۔
واضح رہے کہ بوڑھی عورتوں کے لیے پردے کی پابندی ضروری نہیں۔ (دیکھیے النور: 24/60)
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہو اُس کے لیے انتہائی ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلنا بھی جائز ہے۔ گھر سے نہ نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عدت خاوند کے گھر میں گزارے۔ البتہ شادی بیان کی محافل میں ایسی عورتوں کو شریک نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ سوگ میں زیب و زینت کے تمام کام منع ہیں۔
جب سوگ کی حالت میں عورت کو غیر محرم سے ضرورت کے وقت بات کی اجازت ہے تو تقریر و تلاوت تو بدرجہ اولیٰ سن سکتی ہے جو کہ اجروثواب کے کام ہیں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں بیوگان سوگ کی حالت مٰن گندے کپڑے پہنتی تھیں جبکہ اسلام میں صرف زرق برق اور شوخ رنگ کے کپڑے پہننے کی ممانعت ہے۔ سادہ کپڑوں کے، خواہ نئے ہوں یا پرانے، پہننے کی حادہ (سوگ والی عورت) کے لیے کوئی ممانعت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب