سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) کیا نجاشی کی میت نماز جنازہ کے وقت پیغمبر ﷺ کے سامنے کر دی گئی تھی؟

  • 23531
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2422

سوال

(161) کیا نجاشی کی میت نماز جنازہ کے وقت پیغمبر ﷺ کے سامنے کر دی گئی تھی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بادشاہ نجاشی فوت ہوا تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کی تھی۔ اس کے بارے میں نوائے وقت میں ایک کالم دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لکھا تھا کہ "نجاشی رضی اللہ عنہ کے جسم کا حبشہ میں ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی نماز جنازہ پڑھانا یہ آپ کا خاصہ ہے اور آپ اپنے امتی کے جسم کو دیکھ رہے تھے اور نماز جنازہ پڑھ رہے تھے۔" کیا اس دیکھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں موجود ہے؟ اگر آپ کا میت کو دیکھنا ثابت ہو تو کیا اس سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھانا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار پاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی صحیح اور قابلِ استناد حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نجاشی (اصحمه) کی نماز جنازہ پڑھاتے وقت اس کے جسم کو دیکھ رہے تھے۔ صحیح احادیث میں، جن میں نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا تذکرہ ہوا ہے، امتی کے جسم کو دیکھ کر نماز جنازہ پڑھنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ (اس سلسلے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، بخاری، ح: 1245،1318،1327،1328،388، مسلم، ح: 951)

ان احادیث میں اس بات کی بھی صراحت موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خاصہ پیغمبر نہ تھا اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو غائبانہ نماز جنازہ سے روک دیتے۔ روکنا تو درکنار آپ نے تو انہیں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اور آپ کے حکم کی تعمیل میں ہی انہوں نے آپ کی اقتداء میں صفیں بنائی تھیں۔

اگر صحابہ کے آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھنے کا تذکرہ بالفرض نہ بھی ہوتا تو بھی یہ ماننا پڑتا کہ صحابہ نے آپ کی معیت میں نماز جنازہ ادا کی ہو گی کیونکہ شریعت مطہرہ میں جماعت کے بغیر نماز جنازہ ادا کرنے کا طریقہ موجود نہیں، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے ہی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ہوتی تو یہ ایسی منفرد بات ہوتی جس کا نقل کیا جانا ضروری تھا۔

علامہ کرمانی لکھتے ہیں:

(قولهم رفع الحجاب عنه ممنوع ولئن سلمنا فكان غائب عن الصحابة الذين صلوا مع النبى صلى الله عليه وسلم) (فتح الباري 432/3)

’’لوگوں کا یہ کہنا کہ پردہ اٹھا دیا گیا تھا ممنوع ہے۔ (اللہ کی قدرت سے تو بعید نہیں مگر اس واقعے میں اس کا ثبوت نہیں۔ راقم) اور اگر ہم تسلیم بھی کر لیں تو نجاشی کی نعش ان صحابہ سے تو غائب تھی جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔‘‘

اگر بالغرض اس بات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ نجاشی کی لاش سے پردہ ہٹا دیا گیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ کیونکہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا سبب حجاب ہٹانا نہیں تھا۔ اگر رفع حجاب کو نماز جنازہ غائبانہ کا سبب مان لیا جائے تو بہت سی نمازیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو جائیں گی۔ نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے ایسے مناظر دکھائے جاتے تھے جو امتی نہیں دیکھ سکتے۔ اس کی ایک مثال صلوٰۃ الکسوف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت و جہنم کا دکھایا جانا بھی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

(إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى ذكر الله)

’’سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا، اس لیے جب تمہیں معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ کا ذکر کرو۔‘‘

صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے دیکھا کہ (نماز میں) آپ اپنی جگہ سے کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے؟ آپ نے فرمایا:

(انى رايت الجنة فتناولت عنقودا ولو اصبته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا واريت النار فلم ار منظرا كاليوم قط افظع)(بخاري، الکسوف، صلوة الکسوف جماعة، ح:1052)

’’میں نے جنت دیکھی اور اس کا ایک خوشہ توڑنا چاہتا تھا، اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے۔ اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی، میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہو گئے، وہ نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز میں شریک تھیں۔ میں نے پوچھا کہ لوگوں کو کیا بات پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ میں نے پوچھا: کیا کوئی نشانی ہے؟ اس کا آپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہو گئی لیکن مجھے چکر آ گیا، اس لیے اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:

(ما من شىء كنت لم اره الا وقد رأيته فى مقامى هذا، حتى الجنة والنار۔  ولقد اوحى الى انكم تفتنون فى القبور)(ایضا، صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، ح: 1053)

’’وہ چیزیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں، اب انہیں میں نے اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا۔ جنت اور دوزخ تک میں نے دیکھی اور مجھے وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تم قبروں میں فتنہ میں مبتلا ہو گے۔‘‘

مذکورہ اور ان جیسی احادیث سے یہ استدلال درست نہیں ہو گا کہ صلوة الكسوف (سورج گرہن کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز) پڑھنا پیغمبر کا خاصہ ہے اور اس کی دلیل میں پردہ ہٹنے کو پیش کرنا درست نہیں ہو گا۔

آج تک کسی بھی امام نے صلوة الكسوف کو خصوصیات نبویہ میں شمار نہیں کیا، اگرچہ آپ نے اس نماز میں غیر معمولی مناظر ملاحظہ کیے۔

مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نجاشی کی میت سے پردہ ہٹنے اور اس سے غائبانہ نماز جنازہ کو خاصہ رسول قرار دینے کے بارے میں لکھتے ہیں:

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نجاشی کی میت سے پردہ ہٹا دیا گیا تھا مگر اولا: تو اس کی کوئی صحیح روایت نہیں۔ ثانیا: اگر پردہ ہٹا بھی دیا گیا ہو تو یہ خاص ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کیونکہ ایک تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ پردے کا ہٹایا جانا ہی اس نماز کے مشروع ہونے کی بنیاد تھی۔ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گہن کی نماز پڑھائی، دوران نماز آپ کو جنت و جہنم دکھلائی گئی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ آپ کے بعد کسی کو جنت و جہنم نہیں دکھلائی جائے گی اس لیے گہن کی نماز آپ کے ساتھ خاص ہوئی۔ اور کسی اور کے لیے مشروع نہیں! (نماز نبوی، ص: 297 (حاشیہ) دارلسلام)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نماز جنازہ کے مسائل،صفحہ:408

محدث فتویٰ

تبصرے