السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ بات ثابت ہے کہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے؟ یا پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کیا جائے جبکہ باقی تکبیرات میں سراوپر اٹھایا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز جنازہ میں تکبیرِ اُولٰی کے وقت رفع الیدین کرنا تمام ائمہ کے نزدیک مسنون ہے۔
تکبیرِ اُولیٰ کے وقت رفع الیدین کرنے پر سب ائمہ دین کا اجماع ہے۔ (الاجماع لابن المنذر، ص: 31)
تکبیروں میں رفع الیدین کرنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(ان النبي صلى الله عليه وسلم كان اذا صلى على جنازة رفع يديه فى كل تكبيرة)(العلل از دارقطنی 22/13، ح:2908)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ ادا کرتے تو ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے۔‘‘
اسی روایت کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص الحبیر (146/2) میں نقل کیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی بعض روایات میں صحیح سند کے ساتھ یہ الفاظ بھی منقول ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يديه فى كل تكبيرة"(بیہقی 44/4، نصب الرایة از زیلعی 285/2، جزء رفع الیدین از بخاري، ص:35)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی نماز جنازہ کی تمام تکبیرات میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے، نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا:
انه كان يرفع يديه مع كل تكبيرة على الجنازة(مصنف ابن ابی شیبة، الجنازة، فی الرجل یرفع یدیه فی التکبیر علی الجنازة 181/3، جزء رفع الیدین، ح: 109، 110، 111، مصنف عبدالرزاق 470/ر، ح: 6360)
’’آپ جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔‘‘
صحیح بخاری میں نماز جنازہ کے بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل موجود ہے:
’’وہ جب تک وضو نہ کر لیتے نماز جنازہ ادا نہ کرتے، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز (جنازہ) نہ پڑھتے اور وہ جنازے کی نماز میں (تکبیرات کہتے وقت) رفع الیدین کرتے تھے۔‘‘
(الجنائز، سنة الصلاةعلی الجنازة، بعد از ح: 1321)
ابن قدامہ نے مسئلہ 362 ويرفع يديه فى كل تكبيرة (نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھائے جائیں) کے تحت لکھا ہے کہ ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہما ہر تکبیر کے وقت یہ عمل (یعنی رفع الیدین) کرتے تھے۔ (المغني 348/3-249، دارالحدیث، قاہرہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن منصور کی روایت سے لکھا ہے کہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے صحیح سند سے منقول ہے:
"انه كان يرفع يديه فى تكبيرات الجنازة"(التلخیص الحبیر، الجنائز، 333/1)
’’آپ جنازے کی تکبیرات میں رفع الیدین کرتے تھے۔‘‘
اس سلسلے میں کسی بھی صحابی سے ابن عمر، انس اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے خلاف عمل کرنا یعنی تکبیرات جنازہ میں ترک رفع الیدین ثابت نہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت کی انتہائی زیادہ پابندی کرنے والے تھے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ اور دیگر کا یہ مؤقف ہے کہ نماز جنازہ میں آدمی ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرے، عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی فرمان ہے۔
(ترمذي، الجنائز، ماجاء فی رفع الیدین علی الجنازة، ح:1077)
امام حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز، محمد بن یسر اور عطا بن ابی رباح اور امام زہری رحمۃ اللہ علیہم و دیگر کا یہی مؤقف ہے۔ حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
تکبیرات جنازہ میں رفع الیدین کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ اہل حدیث 121/2، ادارہ احیاء السنة النبویة، سرگودھا)
البتہ امام مالک، امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کا کہنا ہے کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے علاوہ باقی تکبیرات میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ (المغني 249/2)
ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ پہلی تکبیر میں ہی ہاتھ اٹھائے جائیں۔ انہوں نے دو ضعیف احادیث سے استدلال کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ یہ ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں۔ (احکام الجنائز، ص: 156، 157، نور الاسلام اکیڈمی، لاہور)
یہ ضعیف احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة فرفع يديه فى اول تكبيرة و وضع اليمنٰى على اليسرٰى(ترمذي، الجنائز، ما جاء فی رفع الیدین علی الجنازة، ح: 1077)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے پر تکبیر کہی تو پہلی تکبیر میں رفع الیدین کیا اور دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا۔‘‘
اس روایت کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے غریب قرار دیا ہے۔ (ایضا)
2۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه على الجنازة فى اول تكبيرة ثم لا يعود"
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کرتے تھے، پھر ایسا نہیں کرتے تھے۔‘‘
ان دو روایات میں سے پہلی روایت میں نماز جنازہ کی ابتدائی کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ باقی تکبیرات اور ان کے ساتھ رفع الیدین کے بارے میں یہ حدیث خاموش ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ ایک روایت دوسری کو تقویت دیتی ہے، درست نہیں۔ ثم لا يعود والی روایت باقی تکبیرات میں عدمِ رفع الیدین کے بارے میں صریح ہے، مگر یہ بھی ضعیف ہے اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ضعیف حدیث صحیح احادیث کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی۔ پہلی روایت کو علامہ البانی نے خود ہی ضعیف، جبکہ دوسری روایت کے راوی کو مجہول قرار دیا ہے۔
نیز دارقطنی کی یہ روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل اس حدیث کے خلاف تھا۔ وہ نماز جنازہ کی تمام تکبیرات میں رفع الیدین کرتے تھے۔ (جیسا کہ پیچھے بیان ہو چکا ہے) اہل کوفہ (احناف) کا اصول یہ ہے کہ جب راوی کا فتویٰ یا عمل اس کی روایت کے خلاف ہو تو راوی کی روایت لینے کی بجائے راوی کے فتویٰ اور عمل کو اختیار کیا جاتا ہے۔
غالبا یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے احناف بھی نماز جنازہ کی تمام تکبیرات میں ہاتھ اٹھانے کے قائل ہو گئے۔ علامہ سرخسی لکھتے ہیں:
بلخ کے بہت سے ائمہ دین نے نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھانے کا عمل اختیار کیا ہے۔ (المبسوط 64/2)
سر اوپر اٹھانے کے جواز پر کوئی روایت ثابت نہیں ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ دورانِ نماز آسمان کی طرف سر اٹھانے کی ممانعت پر اجماع ہے۔ (فتح الباري 234/2)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لينتهين أقوام يرفعون أبصارهم إلى السماء في الصلاة أو لا ترجع إليهم)(مسلم، الصلوٰة، النھی عن رفع البصر الی السماء فی الصلوٰة، ح: 428)
’’دورانِ نماز لوگ اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھانے سے ضرور باز آ جائیں، ورنہ ان کی نظر جاتی رہے گی۔‘‘
دورانِ نماز اگر دعا کا موقع ہو تو اس وقت بھی نگاہ اوپر نہیں اٹھانی چاہئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ رَفْعِهِمْ أَبْصَارَهُمْ عِنْدَ الدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى السَّمَاءِ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ) (مسلم، ایضا، ح:429)
’’لوگ نماز میں دعا کرتے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے سے ضرور رُک جائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔‘‘
ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
(لينتهين عن ذلك او ليخطف الله ابصارهم)(ابن ماجه، اقامة الصلوٰة، الخشوع في الصلوٰة، ح: 1044)
’’لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ اللہ ان کی نگاہیں اچک لے گا۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں کسی نماز کی تخصیص نہیں ہے۔ لہذا نماز فرض، سنت و نفل اور نماز جنازہ وغیرہ سب میں اس کی عمومی ممانعت کا اطلاق ہوتا ہے۔
احناف کے عالم مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے سوال کیا گیا کہ کیا نماز جنازہ کی ہر تکبیر میں سر آسمان کی طرف اٹھانا چاہئے؟ تو انہوں نے ’’نہیں‘‘ میں جواب دیا۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل 164/3)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب