السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دوست نے لندن میں مجھے ایک مجلہ دیا جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر آپ لوگوں نے یہاں میت پر نماز جنازہ پڑھ لی تو پاکستان میں دوبارہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جا سکتی کیونکہ وارثوں نے امام صاحب کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دے دی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری راہنمائی کی جائے کہ کیا قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہے کہ اگر ولی (وارث) امام کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دے دے تو پھر کوئی دوسری بار نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔ اگر پڑھا دی جائے تو کیا وہ بدعت ہو گی؟ یہ خط آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ صرف اورصرف قرآن و حدیث سے جواب دیتے ہیں۔ ہم سب کے سب مسلمان ہیں، یہ فرقے ہمیں کہیں سے کہیں لے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہماری راہنمائی کریں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک سے زائد مرتبہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ جو لوگ پہلی بار نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکے ہوں وہ دوبارہ نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ دوبارہ نماز جنازہ میں شریک ہو سکتے ہیں جنہوں نے پہلے نماز جنازہ پڑھ لی ہو۔ کسی ولی (وارث) نے پہلے نماز جنازہ پڑھ لی ہو یا نہ پڑھی ہو یا پڑھانے کی اجازت دی یا نہ دی، اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ میں ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا، میت رات کو ہی دفنائی گئی تھی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
(متى دفن هذا؟)
’’اسے کب دفن کیا گیا؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا: گزشتہ رات، آپ نے فرمایا:
(افلا آذنتمونى؟)
"تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟
لوگوں نے کہا کہ اسے اندھیری رات میں دفن کیا گیا تھا اس لیے ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا (آپ کو بے آرام کرنا اچھا خیال نہ کیا۔) عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
پھر آپ کھڑے ہو گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔
(بخاري، الجنائز، صفوف الصبیان مع الرجال فی الجنائز، ح:1321)
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرے:
"فأمهم وصلوا خلفه"(ایضا، الصلاة علی القبر بعد ما یدفن، ح:1336)
’’آپ نے امامت کروائی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔‘‘
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس نے پہلے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو وہ بعد میں پڑھ سکتا ہے نیز جو لوگ ایک بار نماز جنازہ پڑھ چکے ہوں وہ بھی دوبارہ نماز جنازہ میں شریک ہو سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی واضح ہوا کہ جب قبر میں دفن میت کی نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے تو جو میت ابھی تک دفن نہ کی گئی ہو اس پر دوبارہ کیوں نہیں پڑھی جا سکتی؟
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار نماز جنازہ ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ادا کی بعد ازاں
"اتى القتلى يصفون ويصلى عليهم و عليه معهم"(معانی الآثار 290/1)
’’دوسرے شہداء باری باری لائے گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کی بھی نماز جنازہ ادا کی اور ان کے ساتھ ساتھ حمزہ (رضی اللہ عنہ) کی بھی نماز جنازہ ادا کرتے رہے۔‘‘
اگر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کی شریعت میں ممانعت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ رضی اللہ عنہ کی بار بار جنازہ کبھی نہ پڑھتے۔
امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما اور بعض دیگر ائمہ دین نے احادیث کی روشنی میں ہی دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے بالخصوص ان لوگوں کے لیے جنہوں نے پہلے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ میت کے رشتہ داروں اور احباب کو نماز جنازہ میں شریک ہونے سے محروم رکھا جائے، خصوصا جب وہ ایک ساتھ اپنے عزیز کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکتے ہوں جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہاں کے رشتہ دار نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں تو پاکستان میں رہنے والے محروم ہوتے ہیں اور اگر پاکستان میں رہنے والوں نے نماز جنازہ پڑھنی ہے تو برطانیہ میں بسنے والے رشتے دار اور احباب محروم رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں احادیث، سنت مطہرہ، اسوہ صحابہ اور ائمہ دین کے فتاویٰ کی روشنی میں میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو دیکھا جائے کہ کتاب و سنت کے زیادہ قریب کون سا موقف ہے، پھر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قبول کر لیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب