السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عالم سے سوال کیا گیا کہ اشراق، چاشت اور اوابین کی نمازوں کی کتنی کتنی رکعتیں ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اشراق کی چار رکعتیں، چاشت آٹھ رکعتیں اور اوابین چھ رکعتیں ہیں۔ وضاحت مطلوب ہے کہ ان نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟ ان کی رکعات کی تعداد کیا ہے؟ ان نمازوں کی حقیقت کیا ہے؟ بعض لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھے جانے والے چھ نوافل کو نماز اوابین کہتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صلاة الاوابين، اشراق اور صلاة الضحى (نماز چاشت) دراصل ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جسے مختلف اوقات میں پڑھنے کی وجہ سے کئی ناموں سے پکارا گیا ہے۔
صلاۃ الضحیٰ کی احادیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(يصبح على كل سُلَامَى من أحدكم صدقة، فكل تسبيحة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، ويجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى)(مسلم، صلاة المسافرین، استحباب صلاۃ الضحیٰ، ح: 820)
’’تم میں سے ہر ایک اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے ذمے اس کے تمام جوڑوں (360 جوڑ) پر صدقہ ہوتا ہے۔ سبحان الله کہنا صدقہ ہے، الحمدلله کہنا صدقہ ہے، لا اله الا الله کہنا صدقہ ہے، الله اكبر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اس سلسلے میں (صدقے کے طور پر) ضحیٰ کی دو رکعت بھی کفایت کر جاتی ہیں جو کوئی انہیں ادا کرتا ہے۔‘‘
ایک حدیث قدسی میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(يا ابن آدم اركع لي أربع ركعات أول النهار أكفك آخره)(ترمذي، الوتر، ما جاء فی صلاة الضحی، ح:475)
’’آدم کے بیٹے! خالص میرے لیے چار رکعتیں دن کے شروع میں پڑھ میں تجھے اس دن کی شام تک کفایت کروں گا۔‘‘
تجھے اپنی حفاظت میں رکھوں گا اور تیرے کام سنواروں گا۔
صلاۃ الضحیٰ (چاشت، اشراق، صلاۃ الاوابین) کی رکعات کی تعداد مقرر نہیں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر چار رکعت ادا کیا کرتے تھے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى الضحى اربعا و يزيد ماشاء الله"(مسلم، صلاة المسافرین، استحباب صلاۃ الضحی وان اقلھا رکعتان واکملھا ثمان رکعات و اوسطھا اربع رکعات اوست والحث علی المحافظة علیھا، ح: 719)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضحیٰ کی چار رکعات پڑھا کرتے تھے اور اللہ کو منظور ہوتا تو زیادہ بھی کر لیتے تھے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ضحیٰ کی زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ثابت ہیں۔ ام ہانی (فاختہ بنت ابو طالب) رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"ان النبى صلى الله عليه وسلم دخل بيتها يوم فتح مكة فاغتسل و صلى ثمانى ركعات فلم ارصلاة قط اخف منها غير انه يتم الركوع والسجود"(بخاري، التھجد، صلاۃ الضحی فی السفر، ح:1174)
’’فتح مکہ کے دن آپ ان کے گھر تشریف لائے، آپ نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعات (چاشت کی) نماز پڑھی۔ میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"حدیث ام ہانی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس نماز کا ذکر ہے شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحیٰ کی نماز تھی۔ ابوداؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلى سبحة الضحى یعنی آپ نے ضحیٰ کے نفل ادا کیے اور مسلم نے کتاب الطھارۃ میں نقل کیا:
(ثم صلى ثمان ركعات سبحة الضحى) یعنی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحیٰ کی آٹھ رکعت نفل نماز ادا کی اور تمہید ابن عبدالبر میں ہے کہ "قالت قدم صلى الله عليه وسلم مكة فصلى ثمان ركعات فقلت ما هذه الصلوة قال هذه صلوة الضحى "’’ام ہانی کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ضحیٰ کی نماز ہے۔‘‘
احادیث میں صلاۃ الضحیٰ کی کم از کم رکعات کی تعداددو بھی بیان ہوئی ہے جیسا کہ پیچھے بیان کردہ مسلم کی ایک روایت میں (ركعتان يركعها من الضحى) کے الفاظ ذکر کئے گئے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اوصانى خليلى بثلاث بصيام ثلاثة أيام من كل شهر، وركعتي الضحى، وأن أوتر قبل أن ارقد(مسلم، صلاة المسافرین، استحباب صلاة الضحی ۔۔، ح:721، بخاري، التھجد، صلاۃ الضحی فی الحضر، ح:1178)
’’میرے خلیل۔ (جانی دوست صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے تین چیزوں کی وصیت کی: میں (ساری زندگی) ہر مہینے کے تین (نفلی) روزے رکھوں، ضحیٰ کی دو رکعت پڑھتا رہوں اور سونے سے پہلے وتر ادا کروں۔‘‘
سونے سے پہلے وتراداکرنے کے بارے میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "سونے سے پہلے وتراداکرنا اس شخص کے لیے مستحب ہے جو رات کے آخری حصے میں اٹھنے کے بارے میں اپنے آپ پر اعتماد نہیں کرتا۔ اگر اسے اعتماد ہو تو پھر رات کا آخری حصہ (وتر کی ادائیگی کے لیے) افضل ہے (ریاض الصالحین) حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔
(دیکھیے مسلم، صلاة المسافرین من خاف ان لا یقوم، ح:755)
جہاں تک صلاۃ الضحیٰ کے وقت کا معاملہ ہے تو وہ سورج کے ایک نیزی تک بلند ہو جانے سے شروعہو کر زوال آفتاب تک رہتا ہے۔ مگر سورج کے خوب بلند ہو جانے کے بعد اور گرمی کی شدت کے وقت پڑھنا افضل ہے۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہ: سنو! یقینا یہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کے علاوہ دوسرے وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(صلاة الاوابين حين ترمض الفصال)(مسلم، صلاة المسافرین، صلاة الاوابین حین ترمض الفصال، ح:748)
’’صلاۃ الاوابین (رجوع کرنے والوں کی نماز) اس وقت ہے جب گرمی کی شدت سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلیں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضحیٰ (چاشت) کی نماز طلوعِ آفتاب کے کافی وقت بعد پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ ہاں اس نماز کو اگر اس کے ابتدائی وقت یعنی سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد پڑھ لیا جائے تو اسے نماز اشراق کہہ دیا جاتا ہے۔ وقت کا اندازہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ایک ہی نماز کے دو نام ہیں۔ ایک اور حدیث میں بھی صریحا صلاۃ الضحی کو صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'صلاۃ الضحی کی حفاظت اواب (اللہ کی طرف رجوع کرنے والا) ہی کر سکتا ہے، پھر فرمایا: یہی صلاۃ الاوابین ہے۔‘‘(مستدرک حاکم 314/1، ابن خزیمه، ح:1224)
نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھے جانے والے نوافل کو صلاۃ الاوابین کہنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
نوٹ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ الضحی کو پابندی سے ادا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ کئی کئی دنوں کا وقفہ ڈال لیتے تھے۔ اس کا ایک مقصد امت کے لیے آسانی بھی ہو سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب