سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) کیا امام بھی (ربنا ولك الحمد) کہے؟

  • 23517
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1322

سوال

(147) کیا امام بھی (ربنا ولك الحمد) کہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض احادیث میں ہے کہ جب امام (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم (ربنا ولك الحمد) کہو تو کیا امام رکوع سے اٹھتے ہوئے (سمع الله لمن حمده) کے بعد (ربنا ولك الحمد)) بھی کہے گا یا صرف (سمع الله لمن حمده) ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جن احادیث میں ہے کہ جب امام (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم (ربنا ولك الحمد) کہو، ان سے مقصود صرف یہ ہے کہ مقتدی امام کے تسمیع (سمع الله لمن حمده) کے بعد (ربنا ولك الحمد) کہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(انما جعل الامام ليؤتم به فاذا كبر فكبروا واذا ركع فاركعوا واذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد واذا سجد فاسجدوا واذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون)(بخاري، الاذان، ایجاب التکبیر و افتتاح الصلاۃ، ح:734)

’’امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب وہ تکبیر کہے گا تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم (ربنا ولك الحمد) کہو، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘

اس حدیث میں آنے والے لفظ فقولوا میں حرف فاء تعقیب کے لیے ہے یعنی امام کے (سمع الله لمن حمده) کے متصل بعد مقتدی کو (ربنا ولك الحمد) کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی معنی کی حدیث انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس کے بارے میں علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ امام اور مقتدی اس موقع پر کیا کہیں بلکہ محض یہ بتانا کہ مقتدی کی (ربنا ولك الحمد) امام کی (سمع الله لمن حمده) کے بعد ہونی چاہئے۔ (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم، ص: 135)

مزید برآں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (سمع الله لمن حمده) کے بعد قومے میں (ربنا ولك الحمد) کہنا بھی ثابت ہے۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:

1۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم ، ثم يكبر حين يركع ، ثم يقول : سمع الله لمن حمده ، حين يرفع صلبه من الركعة ، ثم يقول وهو قائم : ربنا ولك الحمد ، ثم يكبر حين يهوي ، ثم يكبر حين يرفع رأسه ، ثم يكبر حين يسجد ، ثم يكبر حين يرفع رأسه ، ثم يفعل ذلك في صلاته كلها ، حتى يقضيها ، ويكبر حين يقوم من الثنتين بعد الجلوس(بخاري، الاذان، التکبیر اذا قام من السجود، ح: 789)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع کرتے تب بھی تکبیر کہتے تھے۔ پھر جب سر اٹھاتے تو (سمع الله لمن حمده) کہتے اور کھڑے ہی کھڑے (ربنا ولك الحمد) کہتے۔ پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے (سجدہ کے لیے) جھکتے، پھر جب سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب (دوسرے) سجدہ کے لیے جھتے تب تکبیر کہتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تب بھی تکبیر کہتے۔ اسی طرح آپ تمام نماز پوری کر لیتے تھے۔ قعدہ اولیٰ سے اٹھنے پر بھی تکبیر کہتے تھے۔‘‘

قعدہ اولیٰ سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہنے کا تذکرہ حدیث مذکورہ میں بیان کردہ نماز کے فرض نماز ہونے کا قرینہ ہے۔ نوافل کی ادائیگی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کرتے تھے۔

2۔ عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اٹھتے تو یہ پڑھتے:

(سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات و ملء الارض و ملء ما شئت من شىء بعد)(مسلم، الصلوٰة، ما یقول اذا رفع راسه من الرکوع، ح:476)

’’اللہ نے اس شخص کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔ اللہ! ہمارے رب! تیرے ہی لیے ہے سب تعریف تمام آسمان بھر کر، زمین بھر کر اور اس بعد وہ چیز بھر کر جسے تُو چاہے۔‘‘

3۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو یہ کلمات پڑھتے:

(ربنا لك الحمد ملء السموات و ملء الارض و ملء ما شئت من شىء بعد، اهل الثناء والمجد احق ما قال العبد و كلنا لك عبد، اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطى لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد) (ایضا، ح:477)

’’ہمارے پروردگار! ہر قسم کی تعریف صرف تیرے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور ہر اُس چیز کے بھراؤ کے برابر جو تو چاہے اور بندے نے جو تیری تعریف اور بزرگی کی وہ تیرے لائق ہے اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں، اللہ! کوئی روکنے والا نہیں اس چیز کو جو تُو نے دی اور کوئی دینے والا نہیں اس چیز کو جو تُو نے روک دی اور دولت مند کو دولت مندی تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘

اس قسم کی اور بھی کئی دعائیں ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ربنا لك الحمد یا ربنا ولك الحمد یااللهم ربنا ولك الحمدوغیرہ کلمات پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

سوال میں جن احادیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ (سمع الله لمن حمده) کے بعد امام (ربنا ولك الحمد) وغیرہ کلمات نہ کہے، کیونکہ یہ احادیث ان احادیث کے مشابہ ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾کہے تو تم آمین کہو۔ لوگوں کو آمین کہنے کا حکم دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام آمین نہ کہے۔ دیگر احادیث سے امام کے آمین کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا امن الامام فامنوا) (بخاري، الاذان، جھر الامام بالتامین، ح:780)

’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قال: «وَلَا الضَّالِّينَ» قرأ: «أمين» ورفع بها صوته(ابوداؤد، الصلاة، التامین وراء الامام، ح:932، الترمذي، الصلاة، ما جاء فی التامین، ح:248

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب (وَلَا الضَّالِّينَ) پڑھتے تو آمین کہتے، آپ آمین بلند آواز سے کہتے تھے۔‘‘

تو جس طرح حدیث 'جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ کہے تو تم آمین کہو' کی وضاحت مذکورہ بالا احادیث سے ہو جاتی ہے اسی طرح ’’جب امام (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم(ربنا ولك الحمد) کہو‘‘ کی وضاحت بھی ان احادیث سے ہو جاتی ہے جن میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (سمع الله لمن حمده) کے بعد قومہ میں (ربنا ولك الحمد) وغیرہ کلمات پڑھتے تھے۔ لہذا امام کو (سمع الله لمن حمده)کے بعد قومہ میں یہ کلمات بھی پڑھنے چاہئیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:378

محدث فتویٰ

تبصرے