سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) کیا پہلی شریعتوں میں رکوع اور سجدہ نہیں تھا؟

  • 23506
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 786

سوال

(136) کیا پہلی شریعتوں میں رکوع اور سجدہ نہیں تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا پہلی شریعتوں میں سجدہ اور رکوع نہیں تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات درست نہیں کہ پہلی شریعتوں میں رکوع و سجود کا تصور نہیں تھا۔ قرآن مجید میں بہت سی آیات میں پہلی امتوں کے سجدے اور رکوع کا ذکر ملتا ہے۔ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کو رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے بیت اللہ کو پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَن طَهِّرا بَيتِىَ لِلطّائِفينَ وَالعـٰكِفينَ وَالرُّكَّعِ السُّجودِ ﴿١٢٥﴾... سورة البقرة

داؤد علیہ السلام کے بارے میں﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ص 38/24)) (ص: 38/24) (سجدے میں گر پڑے) کے الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں۔

ان کے بیٹے سلیمان علیہم السلام کے عہد میں لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے تھے جیسا کہ ﴿يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ﴾ (النمل: 27/24) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ہُدہُد نے کہا تھا کہ انہیں چاہئے کہ اس (اللہ) کو سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿أَلّا يَسجُدوا لِلَّهِ الَّذى يُخرِجُ الخَبءَ فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ...﴿٢٥﴾... سورة النمل

اسی طرح بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا:

﴿ ادخُلُوا البابَ سُجَّدًا...﴿١٥٤﴾... سورة النساء

’’دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔‘‘

اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَاركَعوا مَعَ الرّ‌ٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورةالبقرة

’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘

وہ جادوگر، جن کا مقابلہ موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا، حق پا کر سجدہ میں گر پڑتے ہیں:

﴿وَأُلقِىَ السَّحَرَةُ سـٰجِدينَ ﴿١٢٠﴾... سورة الاعراف

مریم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رکوع و سجود کا حکم دیا تھا:

﴿يـٰمَريَمُ اقنُتى لِرَبِّكِ وَاسجُدى وَاركَعى مَعَ الرّ‌ٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورة آل عمران

’’مریم! اپنے رب کی فرمانبرداری کر، سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:360

محدث فتویٰ

تبصرے