سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) بلال رضی اللہ عنہ نے اذان نہ دی تو دن ہی نہ چڑھا؟

  • 23500
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5860

سوال

(130) بلال رضی اللہ عنہ نے اذان نہ دی تو دن ہی نہ چڑھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قوالوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ ایک دفعہ بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان نہیں دی تھی تو دن ہی نہیں چڑھا تھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ موذن رسول اور جلیل القدر صحابی ہیں، مگر یہ بات کہ انہوں نے فجر کی اذان نہیں دی تھی تو رات ہی ختم نہیں ہوئی تھی، غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض دفعہ فجر کی اذان بلال رضی اللہ عنہ نہیں دیتے تھے بالخصوص رمضان المبارک میں کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رمضان المبارک میں فجر کی اذان عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ سحری کی اذان دیتے تھے، جیسا کہ بخاری کی روایت سے ثابت ہے۔

(بخاری، الاذان، اذان الاعمي اذا کان ۔۔، ح:617)

دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ سوئے ہوئے تھے کہ سورج نکل آیا۔ ایک مکمل حدیث ملاحظہ کریں تاکہ اصل صورت حال واضح ہو، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ حارث بن ربعی سے روایت بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

ہم (خیبر سے واپسی پر) رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو بعض لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ یہاں پڑاؤ ڈال لیں تو بہتر ہو گا، آپ نے فرمایا:

(اخاف ان تناموا عن الصلاة)

’’میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری آنکھ نہ لگ جائے (اور نماز کے لیے نہ اٹھو)‘‘

بلال نے عرض کیا: میں آپ کو جگا دوں گا، پھر سب لیٹ گئے اور بلال نے اپنی پشت اپنی اونٹنی سے لگائی اور نیند کے غلبے سے سو گئے پھر (سب سے پہلے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم جاگے، اس وقت سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آیا تھا (سورج طلوع ہو رہا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! آپ نے تو کہا تھا: میں تمہیں جگا دوں گا؟ بلال نے عرض کیا: مجھے ایسی نیند کبھی نہیں آئی تھی۔ آپ نے فرمایا:

(إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ يَا بِلَالُ ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ)(بخاري، مواقیت الصلاة، الاذان بعد ذھاب الوقت، ح؛599، مسلم، المساجد، قضاء الصلاة الفائتة و استحباب تعجیل قضائھا، ح: 681)

’’اللہ نے جب چاہا تمہاری جانیں قبض کر لیں اور جب چاہا پھر تم کو دے دیں، بلال! اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو۔‘‘

بلال نے اذان دی، آپ نے وضو کیا، جب سورج بلند ہو کر سفید ہو گیا آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔

احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کیا اور دوسری جگہ جا کر نماز پڑھی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کا یہ کہنا کہ بلال رضی اللہ  عنہ نے اذان نہیں دی تھی تو صبح ہی نہیں ہوئی تھی، خلاف حقیقت ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:354

محدث فتویٰ

تبصرے