سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کا اضافہ کس نے کیا تھا؟

  • 23499
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1049

سوال

(129) اذان فجر میں الصلاة خير من النوم کا اضافہ کس نے کیا تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لیکچر کے دوران ٹیچر نے کہا: ’’یہ بات جو لوگوں میں مشہور ہو گئی ہے کہ اذان میں (الصلاة خير من النوم) کا اضافہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا غلط ہے۔‘‘ میں حیران رہ گیا کیونکہ میں نے بھی سن رکھا تھا کہ یہ اضافہ اولیات عمر میں سے ہے، صحیح بات کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے استاد نے بالکل درست اور حق بات کہی، کیونکہ (الصلاة خير من النوم) کے کلمات عہد نبوی میں بھی اذان فجر میں کہے جاتے تھے اور اس کی تعلیم خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو دی تھی، موذن رسول ابومحذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

اللہ کے رسول! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ کو فجر کی اذان میں (الصلاة خير من النوم ) کہنے کی تعلیم دی اور فرمایا: اگر صبح کی نماز ہو تو آپ (اذان میں) یہ کہیں:

(الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم)(ابوداؤد، الصلاة، کیف الاذان، ح:500 اس کی سند میں حارث بن عبید ضعیف راوی ہے تاہم یہ مسئلہ سنن نسائي (ح: 633)، ابن خزیمه (ح: 385) وغیرہ کی احادیث سے ثابت ہے۔)

یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ غلط بات کیونکر لوگوں میں رائج ہو گئی، دراصل اس کا سبب عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب شدہ ایک رویت ہے جسے سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کی ہے، ویسے وہ روایت اصول حدیث کے مطابق صحیح بھی نہیں ہے، محدثین نے اس روایت کو معضل اور مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ اگر روایت بالفرض درست بھی ہو تب بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اذان میں (الصلاة خير من النوم) کا اضافہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ روایت یوں ہے:

امام مالک سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی

"أن المؤذن جاء إلى عمر بن الخطاب يؤذنه لصلاة الصبح ، ( فوجده نائما ) ، فقال : الصلاة خير من النوم ، فأمره عمر أن يجعلها في نداء الصبح"

’’موذن صبح کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ آپ سو رہے ہیں، تو موذن نے کہا: (الصلاة خير من النوم) (آپ رضی اللہ عنہ بیدار ہو گئے) تو آپ نے یہ کلمات موذن کو صبح کی اذان میں کہنے کا حکم دیا۔‘‘

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ موذن کو سمجھا رہے تھے کہ ان کلمات کو اذان میں رکھو، ان کا موقع و محل یہ نہیں بلکہ یہ کلمات اذان فجر میں کہنے کے لیے ہیں (جو کہ تعلیم نبوی سے ثابت ہے۔) سوئے ہوئے شخص کو جگانے کے لیے اس کے پاس آ کر کہنے کے لیے یہ الفاظ نہیں ہیں!

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:353

محدث فتویٰ

تبصرے