سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) مسجد کی دیوار پر پڑوسی کے گھر کی چھت!

  • 23491
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2158

سوال

(121) مسجد کی دیوار پر پڑوسی کے گھر کی چھت!

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد کا ہمسایہ اپنے گھر کی چھت مسجد کی دیوار پر رکھنا چاہتا ہے۔ مسجد کی دیوار پر جتنی لاگت آئی ہے اس کا خرچ دینے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اہل محلہ (مسجد کی انتظامیہ) اس پر رضامند ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جہاں مسجد کی دیوار بنی ہوئی ہے، اس کے بارے میں یہ حتمی علم نہیں ہے کہ وہ جگہ مسجد کی ہے، ہمسائے کی ہے یا مسجد اور ہمسائے کی مشترکہ ہے۔ صورت مسئولہ میں کیا پڑوسی کو اجازت ہے کہ وہ مسجد کی انتظامیہ کی رضامندی سے دیوار کی قیمت ادا کر کے اپنے کمرے کی چھت اس دیوار پر رکھ لے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں پڑوسی کو اجازت ہے کہ وہ اپنے گھر کے کمرے کی چھت مسجد کی دیوار پر رکھ لے۔ اگر وہ دیوار پر لاگت شدہ رقم کی ادائیگی بھی کر دیتا ہے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ مسجد کی دیوار سے استفادہ تو کیا جا سکتا ہے مگر پڑوسی کو مسجد کی دیوار کا مالک قرار نہیں دیا جائے گا۔ دیوار مسجد کی ملکیت ہی رہے گی۔ یعنی یہ نہیں ہو گا کہ کل کو مسجد کا ہمسایہ اپنی ذاتی مصلحت کے لیے دیوار کو گرا سکے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مسجد کی اشیاء کو مسجد کے مفاد کے لیے فروخت یا تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔

حتی کہ کسی مسجد کو آگے پیچھے کرنا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مگر ہر صورت میں مسجد کی بہتری اور مفاد کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی مسجد نمازیوں کے لیے ناکافی ہو، آس پاس کی جگہ مسجد میں ملانا ممکن نہ ہو تو اس مسجد کی جگہ فروخت کر کے متبادل جگہ، جو نمازیوں کی تعداد  کے لیے کفایت کرے، خرید کر مسجد بنائی جا سکتی ہے۔

اس کی تائید صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ کوفہ میں مسلمانوں کے بیت المال کو نقب لگا کر کسی نے چوری کر لی۔ نقب لگانے والا پکرا جاتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت بیت المال کے نگران تھے۔ انہوں نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو انہوں نے جواب دیا:

(ان انقل المسجد وصير بيت المال فى قبلته) :

’’مسجد کو منتقل کر لو کہ بیت المال مسجد کے قبلہ میں آ جائے۔‘‘ مسجد میں کوئی نہ کوئی نمازی تو ہوتا ہے (بیت المال اس طرح کے واقعات سے محفوظ ہو جائے گا) تو سعد بن مالک نے وہاں سے مسجد ختم کر کے کھجوروں کی منڈی میں بنا دی اور منڈی کو مسجد کی جگہ منتقل کر دیا۔ بیت المال بھی مسجد کے قبلہ میں بن گیا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ 31/ 217)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

مسجد کے احکام و مسائل،صفحہ:339

محدث فتویٰ

تبصرے