السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر پیر اپنے مریدوں کو اپنے 'ارشادات' کی تحقیق کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ تحقیق کرنے کو منافقت قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل شریعت کی روشنی میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام مسلمان اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کے پابند ہیں۔ کتاب و سنت کی مخالفت سے اہل اسلام کو روکا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ...﴿١﴾... سورة الحجرات
’’ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
لہذا اللہ اور رسول کے علاوہ ہر کسی کی بات کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر وہ قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے مسترد کر دیا جائے گا کیونکہ اسے ماننے سے قرآن و حدیث کی مخالفت لازم آتی ہے جو کہ حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء
’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
اس آیت میں جو (سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ) کا تذکرہ ہوا ہے اس سے مراد بھی کتاب و سنت کی اتباع ہے کیونکہ تمام صحابہ اور دیگر اہل ایمان کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں۔ اہل ایمان کو حکم بھی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔ باقی ہر کسی کی اطاعت مشروط ہے یعنی اگر کسی کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی تو مان لی جائے گی ورنہ اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ اسی لیے صحابہ کرام بالخصوص حکمران صحابہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہم قرآن و سنت کے مطابق تمہیں حکم دیں تو اس کی اطاعت کریں، اگر اس کے برعکس ہو تو ہمیں سیدھا کر دیں، ہماری اصلاح کریں اور ہماری بات نہ مانیں۔
پیروں کا لوگوں کو اپنی ہر بات ماننے کا حکم دینا اور اپنے اقوال کی تحقیق کرنے کو منافقت قرار دینا درحقیقت منافقت ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگ ہماری باتوں کی تحقیق کرنے لگ گئے تو ہماری جہالت کا پردہ چاک ہو جائے گا، دریں صورت لوگوں کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ فرمان الہٰی، منہج نبوی اور ارشادات نبویہ سے دُور رہنے اور لوگوں کو اُن تک نہ پہنچنے دینے کو قرآن نے منافقت قرار دیا ہے۔ نیز قرآن میں صرف اللہ اور رسول کی غیر مشروط اطاعت کو ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يَزعُمونَ أَنَّهُم ءامَنوا بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّـٰغوتِ وَقَد أُمِروا أَن يَكفُروا بِهِ وَيُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يُضِلَّهُم ضَلـٰلًا بَعيدًا ﴿٦٠﴾ وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا إِلىٰ ما أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسولِ رَأَيتَ المُنـٰفِقينَ يَصُدّونَ عَنكَ صُدودًا ﴿٦١﴾... سورة النساء
’’ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو آپ پر اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیراللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دُور ڈال دے۔ ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب