سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات، نمازیں کیسے پڑھی جائیں؟

  • 23476
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1764

سوال

(106) چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات، نمازیں کیسے پڑھی جائیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام عالمگیر دین نہیں۔ اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں مگر ان علاقوں میں جہاں چھ چھ مہینے کا دن ہوتا ہے اور چھ چھ مہینے کی رات ہوتی ہے وہاں یہ پانچ نمازیں کیسے ادا ہوں گی نیز چھ مہینے کا دن ہو تو اتنے لمبے دن اک روزہ کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ ہماری اس معاملے میں راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام عالمگیر دین ہے۔ پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٢٨﴾... سورة سبا

’’ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ قُل يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ﴿١٥٨﴾... سورة الاعراف

’’آپ کہہ دیجیے! لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو اللہ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آ جاؤ۔‘‘

یہ آیت بھی رسالت محمدی کی عالمگیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری بنی نوع انسانی کے نجات دہندہ اوررسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذہب میں۔نجات اور ہدایت اگر ہے توصرف اسلام کے اپنانے اوراسے ہی اختیار کرنے میں ہے۔ (احسن البیان تفسیر آیت مذکور)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاةُ فَلْيُصَلِّ ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً) (بخاری، التیمم، ح: 335)

’’مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں، ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو (جہاں بھی) پا لے اسے وہاں نماز ادا کر لینی چاہئے۔ (جبکہ باقی امتوں کے لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں ہی عبادت کر سکتے تھے) اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے، مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانون کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : كَانَ كُلُّ نَبِيٍّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ ، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلُّ لأَحَدٍ قَبْلِي ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ طَيِّبَةً وَطَهُورًا وَمَسْجِدًا فَأَيُّمَا رَجُلٍ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاةُ صَلَّى حَيْثُ كَانَ ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَيْنَ يَدَيَّ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ)(مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، ح: 521)

’’مجھے پانچ چیزیں ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں ملیں، ایک تو یہ کہ ہر پیغمبر خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں سرخ اور سیاہ ہر شخص کی طرف بھیجا گیا ہوں (سرد ملکوں کے لوگ شرخ ہیں اورگرم ملکوں کے لوگ سیاہ تو مطلب یہ ہے کہ میری نبوت عام ہے کسی ملک سے خاص نہیں) اور مجھے غنیمت کا مال حلال ہوا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے ساری زمین پاک اور پاک کرنے والی کی گئی۔ پھر جس شخص کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں نماز پڑھ لے، اور مجھے مدد دی گئی رعب سے جو ایک مہینہ کے فاصلے سے پڑتا ہے (یعنی میری دھاک ایک مہینے کی راہ سے پٹ جاتی ہے) اور مجھے شفاعت عطا ہوئی ہے۔‘‘

(وَبُعِثْتُ إِلَى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ) سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیریت ثابت ہوتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اسلام عاالمگیر دین ہے، اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

قطبی علاقے جہاں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے وہاں چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ادا کی جائیں گی اور روزے بھی اندازے سے رکھے جائیں گے۔ اندازہ لگانے کی راہنمائی حدیث میں موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

تم میں سے جو اُسے پائے وہ اس پر سورۃ الکھف کی ابتدائی آیات تلاوت کرے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان واقع راستے سے نکلے گا اور آنا فانا دائیں بائیں فساد ہی فساد برپا کر دے گا۔ اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا۔ ہم (صحابہ) نے استفسار کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنی دیر تک دنیا میں رہے گا؟ آپ نے فرمایا: وہ (زمین میں) چالیس دن تک رہے گا۔ پہلا دن سال جتنا، دوسرا ایک ماہ کے مساوی اورتیسرا ایک ہفتے کے برابر ہو گا جبکہ باقی سب دن (37 دن) تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہمیں اس دن میں، جو سال کے برابر ہو گا، ایک دن کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی؟ آپ نے فرمایا:

(لا, اقدروا له قدره) (مسلم، الفتن، ذکر الدجال، ح: 2937)

’’نہیں، بلکہ تم (پانچ نمازوں کے اوقات کا) اندازہ لگانا۔‘‘

اس حدیث کی شرح میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

یہ حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ آج بھی بعض قطبی علاقوں میں چھ چھ ماہ کا دن اوراتنی لمبی رات ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں میں یہ حدیث نماز کے حوالے سے ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے، حالانکہ آج سے کئی صدیاں قبل جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی تب یہ صورتحال معلوم نہ تھی۔ سچ فرمایا رب العالمین نے:

﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ...﴿٣﴾... سورة المائدة

’’آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اورتمہارے لیے اسلام کو بطوردین پسند کر لیا ہے۔‘‘ (دیکھیے مجموع فتاویٰ و رسائل 18/2)

لہذا اسلام پر کیے جانے والے عتراضات میں کوئی وزن نہیں اوریہ خلافِ حقیقت ہیں نیز یہ اعتراضات معترضین کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلام و ایمان اور کفر،صفحہ:300

محدث فتویٰ

تبصرے