السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں چند پروفیسر حضرات نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈنمارک، ناروے اور دیگر ممالک کے حکمرانوں سے کہیں کہ وہ توہین آمیز خاکے بنانے اور چھاپنے والوں کو اپنے ملکی قوانین کے مطابق سزا دیں۔ کچھ نے کہا کہ انہیں سخت سزا دی جائے جبکہ بعض شرکائے مجلس نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق گستاخانِ رسول کی سزا قتل ہے۔ لہذا متعلقہ ممالک سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ توہینِ رسالت کے مرتکب افراد کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ان کے سر قلم کیے جائیں۔ کیا توہینِ رسسالت کے مرتکب کی سزا قتل ہی ہے خواہ وہ مسلم ہی کیوں نہ ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سزا قتل ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں۔ عہدِ رسالت اور عہد صحابہ میں توہینِ رسالت کے مرتکب افراد کو قتل کیا جاتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا:
(من لكعب بن الأشرف فإنه قد أذى الله ورسوله)(بخاري، المغازی، قتل کعب بن الاشرف، ح: 4037)
’’کعب بن اشرف کا کون کام تمام کرے گا؟ کیونکہ اُس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت اذیت پہنچائی ہے۔‘‘
آپ کا یہ فرمان سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
(يا رسول الله! اتحب ان اقتله؟ فقال:((نعم)))
’’اللہ کے رسول! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں (میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے قتل کر دیں۔)‘‘
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سمیت اس تک رسائی حاصل کی۔
(فلما استمكن منه قال دونكم فقتلوه ثم اتوا النبى صلى الله عليه وسلم فاخبروه) (ایضا)
’’جب محمد بن مسلمہ نے اسے پوری طرح قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اس کی اطلاع دی۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کعب بن اشرف کے بارے میں فرماتے ہیں:
(كان شاعرا يهجو رسول الله صلى الله عليه وسلم) (فتح الباری)
’’وہ شاعر بھی تھا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔‘‘
حدیث کے الفاظ (فإنه قد أذى الله ورسوله) بھی اس پر دلالت کناں ہیں۔
ایک یہودی ابو رافع کے بارے میں براء بن عاذب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
(وكان ابو رافع يؤذى رسول الله صلى الله عليه وسلم و يعين عليه)(بخاري، المغازی، قتل ابی رافع عبداللہ بن ابی الحقیق، ح: 4039)
’’ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں پانچ آدمیوں کو گستاخ یہودی کے قتل پر مامور کیا۔عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اس کے قلعے میں گھس کر بڑی تسلی سے اس کا کام تمام کیا اور لوگوں سے کہا:
(انطلقوا فبشروا رسول الله صلى الله عليه وسلم) (ایضا، ح: 4040)
’’تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سناؤ۔‘‘
بعد ازاں ان لوگوں کے پہنچنے سے پہلے ہی عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، فرماتے ہیں:
(فبشرته) (ایضا)
’’میں نے آپ کو خوشخبری سنائی۔‘‘
اس روایت میں آنے والے الفاظ فبشروا اور بشرته سے معلوم ہوتا ہے کہ گستاخِ رسول کے قتل کی خبر کو خوشخبری کہا گیا ہے۔
معاذ بن عفراء اور معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہما دو نوجوان تھے۔ ان نوجوانوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ ابوجہل ہمارے پیغمبر کو گالیں دیتا ہے ہم اس کا کام تمام کر کے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا عزم پورا کر دیا۔ گستاخِ رسول کے قلع قمع کی کہانی عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے، فرماتے ہیں:
بدر کی لڑائی کے موقع پر میں صف میں کھڑا ہوا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو میری دائیں اور بائیں طرف دو نوجوان کھڑے تھے۔ ابھی میں ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا رفیق سننے نہ پائے، چچا! مجھے ابوجہل تو دکھا دیں۔ میں نے کہا: بھتیجے! تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا: میں نے اللہ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اسے قتل کر کے رہوں گا یا پھر خود اپنی جان دے دوں گا۔ دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھا دیا۔ جسے دیکھتے ہی وہ دونوں بازو کی طرح اس پر جھپٹے اور فورا ہی اسے مار گرایا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔
(بخاري، فرض الخمس، من لم یخمس الاسلاب، ح: 3141)
بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر شاتمِ رسول کو کوئی قتل کر دے تو قاتل سے کوئی قصاص یا دیت نہیں لی جائے گی اور گستاخِ رسول مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔ ایک نابینا صحابی کی امِ ولد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرتی تھی۔ صحابی نے اپنی رفیقہ حیات کو قتل کر دیا اور بعد ازاں وہ صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا:
(الا اشهدوا ان دمها هدر)(ابوداؤد، الحدود، الحکم فیمن سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 4361)
"لوگو! گواہ ہو جاؤ اس کا خون رائیگاں گیا۔"
عمیر بن امیہ کی ایک بہن تھی، جب یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے نکلتے تو یہ انہیں تکلیف دیتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتی، وہ مشرک تھی۔ ایک دن عمیر نے اس کے لیے تلوار لپیٹ کر ساتھ اٹھا لی اور اس کے پاس آئے اور اس سے اسے قتل کر دیا۔ اس عورت کے بیٹے کھڑے ہو گئے اور چیخنے لگے، ہمیں معلوم ہے، اسے کس نے قتل کیا؟ یہ کیسے ہوا کہ ہماری ماں قتل کر دی گئی جبکہ ان لوگوں کے ماں باپ بھی مشرک ہیں؟ جب عمیر کو خطرہ لاحق ہوا کہ وہ کہیں اس کے قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل نہ کر دیں تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارے معاملے کی خبر دی، آپ نے فرمایا:
’’کیا تو نے اپنی بہن کو قتل کر دیا ہے؟‘‘
انہوں نے کہا: ہاں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تو نے اسے کیوں قتل کیا ہے؟‘‘
عمیر نے جواب دیا: وہ آپ کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتی تھی۔
آپ نے اس عورت کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیج کر ان قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کسی اور کا نام لیا۔ آپ نے انہیں صحیح قاتل کے بارے میں بتایا اور اس عورت کا خون رائیگاں قرار دیا۔ (طبرانی کبیر 47/17، ح: 124)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی گستاخِ رسول کو قتل کرنے کے قائل تھے۔ ایک آدمی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلى الله عليه وسلم(ابوداؤ، الحدود، الحکم فیمن سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 4363)
’’نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی بشر کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کی گستاخی پر قتل کی سزا دی جائے۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اس آیت (البقرۃ کی آیت 104 جس میں راعنا کہنے سے منع کیا گیا) کے بعد اہل ایمان نے کہا:
(من سمعتموه يقولها فاضربوا عنقه)
’’جسے یہ کلمہ (راعنا) کہتے ہوئے سنو اُس کی گردن اڑا دو۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(كل من شتم النبى او تنقصه مسلما كان او كافرا فعليه القتل)(الصارم المسلول، 525)
’’ہر وہ آدمی جو نبی کو سب و شتم کرے یا آپ کی تنقیص و تحقیر کرے ایسا شخص مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم او شتمه او عابه او تنقصه قتل، مسلما كان او كافرا) (ایضا)
’’جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دشنام طرازی کی یا آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا اس نے آپ کی تنقیص کی، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘
مختلف ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تمام مکاتب کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ "ان التنقص له كفر مبيح للدم"(ایضا)
’’آپ کی تنقیص کرنے والا کافر اور مباح الدم ہے۔‘‘
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف تو ان کی کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول، شاتمِ رسول کی گردن پر لہراتی ہوئی تلوار۔)
غازی علم دین شہید نے 1929ء میں گستاخِ رسول راج پال ملعون کو قتل کر کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے تازہ مثال قائم کی۔
احادیث، اقوالِ صحابہ اور ائمہ دین کے فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ توہینِ رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر (یہودی، عیسائی، ہندو وغیرہ۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب