سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) کیا شریف الطبع اہل کتاب جنت میں جا سکتے ہیں؟

  • 23463
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2524

سوال

(93) کیا شریف الطبع اہل کتاب جنت میں جا سکتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ لوگ جو اہل کتاب (یہودی، عیسائی) ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیا وہ جنت میں جائیں گے؟کیونکہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر کہا گیا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے بےشک وہ یہودی اور عیسائی وغیرہ ہو تو ان کے اعمال کو قبول کیا جائے گا یعنی وہ جنت میں داخل ہوں گے جیسا کہ سورۃ البقرۃ (آیت 62) میں بتایا گیا ہے۔ کیا ان آیات کا یہی مطلب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنت میں جانے کے لیے تمام ایمانیات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ایمانیات میں یہ بات بھی ہے کہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام اور سماوی کتب پر ایمان لایا جائے۔ جو لوگ بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں انہیں قرآن حکیم میں پکے کافر کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ يَكفُرونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُريدونَ أَن يُفَرِّقوا بَينَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقولونَ نُؤمِنُ بِبَعضٍ وَنَكفُرُ بِبَعضٍ وَيُريدونَ أَن يَتَّخِذوا بَينَ ذ‌ٰلِكَ سَبيلًا ﴿١٥٠ أُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ حَقًّا وَأَعتَدنا لِلكـٰفِرينَ عَذابًا مُهينًا ﴿١٥١﴾... سورة النساء

’’جو لوگ اللہ کے ساتھ اوراس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں۔ یقین مانو کہ یہ سب لوگ پکے کافر ہیں، اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔‘‘

سب انبیاء و رسل علیہم السلام پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے ان آیات سے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذينَ ءامَنوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَم يُفَرِّقوا بَينَ أَحَدٍ مِنهُم أُولـٰئِكَ سَوفَ يُؤتيهِم أُجورَهُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿١٥٢﴾... سورة النساء

’’اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے، یہ ہیں جنہیں اللہ پورا ثواب دے گا اور اللہ بڑی مغفرت والا، بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

(يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ) سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں اعمال کا صلہ انہیں لوگوں کو ملے گا جو سب رسولوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ اہل کتاب بھی اس وقت حق پر تھے جب اپنے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پر عمل پیرا تھے۔ انہیں جیسا ایمان لانے کا کہا گیا تھا ویسا ایمان لائے۔ نہ یہ کہ کسی خاص خاندان، نسل اور گروہ سے تعلق کی وجہ سے ان کی نجات ہو جائے گی۔ سورۃ البقرۃ (اور اسی طرح المائدہ: 5/69 اور الحج: 22/17) میں اسی مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالنَّصـٰرىٰ وَالصّـٰبِـٔينَ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُم أَجرُهُم عِندَ رَبِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٢﴾... سورة البقرة

’’مسلمان، یہودی، نصاریٰ یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر اُن کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔‘‘

یہ آیت ایمانیات کی تفصیل بتانے کے لیے نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ کامیابی کسی خاص گروہ سے تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ سورۃ البقرہ کا بنیادی موضوع ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت ہے، یہ دعوت اہل کتاب کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ مثلا درج ذیل آیات میں ایسے لوگوں کو صریحا کافر کہا ہے جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ ارشاد الہٰی ہے:

﴿يـٰبَنى إِسر‌ٰءيلَ اذكُروا نِعمَتِىَ الَّتى أَنعَمتُ عَلَيكُم وَأَوفوا بِعَهدى أوفِ بِعَهدِكُم وَإِيّـٰىَ فَارهَبونِ ﴿٤٠ وَءامِنوا بِما أَنزَلتُ مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم وَلا تَكونوا أَوَّلَ كافِرٍ بِهِ وَلا تَشتَروا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا وَإِيّـٰىَ فَاتَّقونِ ﴿٤١﴾... سورة البقرة

’’بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل کی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر نہ فروخت کرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘

یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر قرآن پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ جب یہاں قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کو کفر قرار دیا تو چند آیات کے بعد اس طرح کی آیت کیسے آ سکتی تھی جس کا مفہوم یہ ہو کہ قرآن مجید یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر اہل کتاب کی نجات ہو سکتی ہے۔﴿أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرًا ﴿٨٢﴾... سورة النساء

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ایمان نہ لانے کی صورت میں سخت وعید سنائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ ءامِنوا بِما نَزَّلنا مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم مِن قَبلِ أَن نَطمِسَ وُجوهًا فَنَرُدَّها عَلىٰ أَدبارِها أَو نَلعَنَهُم كَما لَعَنّا أَصحـٰبَ السَّبتِ وَكانَ أَمرُ اللَّهِ مَفعولًا ﴿٤٧﴾... سورة النساء

’’اہل کتاب! جو کچھ ہم نے نازل کیا ہے جو اُس کی بھی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے، اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں، یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی اور ہے اللہ کا کام کیا گیا۔‘‘

سورۃ البقرۃ کی آیت 62 سے ملتی جلتی آیت سورۃ المائدہ میں بھی ہے۔ وہاں سیاق و سباق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اہل کتاب قرآن پر ایمان نہ لائیں تو وہ کافر ہیں۔ قرآن پر ایمان لائے بغیر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی بنیادی نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالصّـٰبِـٔونَ وَالنَّصـٰرىٰ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٩﴾... سورة المائدة

’’مسلمان، یہودی، ستارہ پرست اور نصرانی کوئی بھی ہوں، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو اُن پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘

اس آیت سے پہلی آیت میں فرمایا:

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لَستُم عَلىٰ شَىءٍ حَتّىٰ تُقيمُوا التَّورىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلَيَزيدَنَّ كَثيرًا مِنهُم ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ طُغيـٰنًا وَكُفرًا فَلا تَأسَ عَلَى القَومِ الكـٰفِرينَ ﴿٦٨﴾... سورة المائدة

’’آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا ہے اسے قائم نہ رکھو اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ ان میں سے بہت سوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا۔ تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں۔‘‘

تورات اور انجیل کے بعد جو ﴿مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ﴾فرمایا گیا اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ (نیز دیکھیے المائدہ: 5/66)

یہاں تورات اور انجیل کو قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ کیونکہ ان پر ایمان لانے سے ہی وہ عہد پورا ہو گا جو اُن کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان سے لیا گیا ہے۔

﴿يَجِدونَهُ مَكتوبًا عِندَهُم فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ...﴿١٥٧﴾... سورة الاعراف

سورۃ البقرۃ آیت 62 کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت میں جو نبی ہوئے ان پر ایمان لانے والے خواہ کسی گروہ اور قوم سے ہوں وہ جنت میں جائیں گے۔ جنت کسی خاص قوم کے لیے مخصوص نہیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ سوچتے تھے اور﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ﴾المائدۃ 5/18) کی صدا لگاتے تھے۔ جو بھی ایمان لائے اور نیک عمل کرے اسے جنت کی بشارت ہے۔ نبی آکر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لازم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ دین ہی قابل قبول ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٨٥﴾... سورة آل عمران

’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘

ارشاد نبوی ہے:

(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)(مسلم، الایمان، وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 153)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میری اس امت میں جو بھی میری بابت سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ اس چیز پر ایمان نہ لائے جو میں دے کر بھیجا گیا ہوں اور اس کی (اسی حالت میں) موت واقع ہو جائے تو وہ جہنم والوں میں سے ہو گا۔‘‘

یہودونصاریٰ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر کافر و مشرک قرار دیا ہے۔(دیکھیے التوبۃ:9/30-31 اور المائدہ: 5/72-73)

قرآن مجید میں یہ بات بھی واضھ طور پر بیان کی گئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے جو نبی آخر الزمان اور قرآن پر ایمان لائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاختارَ موسىٰ قَومَهُ سَبعينَ رَجُلًا لِميقـٰتِنا فَلَمّا أَخَذَتهُمُ الرَّجفَةُ قالَ رَبِّ لَو شِئتَ أَهلَكتَهُم مِن قَبلُ وَإِيّـٰىَ أَتُهلِكُنا بِما فَعَلَ السُّفَهاءُ مِنّا إِن هِىَ إِلّا فِتنَتُكَ تُضِلُّ بِها مَن تَشاءُ وَتَهدى مَن تَشاءُ أَنتَ وَلِيُّنا فَاغفِر لَنا وَارحَمنا وَأَنتَ خَيرُ الغـٰفِرينَ ﴿١٥٥وَاكتُب لَنا فى هـٰذِهِ الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَةِ إِنّا هُدنا إِلَيكَ قالَ عَذابى أُصيبُ بِهِ مَن أَشاءُ وَرَحمَتى وَسِعَت كُلَّ شَىءٍ فَسَأَكتُبُها لِلَّذينَ يَتَّقونَ وَيُؤتونَ الزَّكو‌ٰةَ وَالَّذينَ هُم بِـٔايـٰتِنا يُؤمِنونَ ﴿١٥٦﴾... سورة الاعراف

’’اور موسیٰ نے ستر آدمی قوم میں سے ہمارے وقتِ معین کے لیے منتخب کئے تو جب انہیں زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰ عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار! اگر تجھے یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم میں سے چند بے وقوفوں کی حرکت پر ہم سب کو ہلاک کر دے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جسے تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جسے چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تُو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہماری مغفرت کر اور ہم پر رحمت نازل کر اور تُو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے۔ اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے۔ لہذا وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو (اللہ سے) ڈرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘

مزید برآں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر دعوت کے کئی دلائلہیں۔ اچھے برے سب لوگوں کے لیے آپ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی کے اچھے ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخری پیغمبر پر ایمان لائے بغیر اس کی نجات ہو سکتی ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ حق پسندی اور تقویٰ کی وجہ سے اچھے لوگوں کا رویہ اسلام کے ساتھ اچھا تھا۔ اسی اچھائی کی وجہ سے اس قسم کے سب لوگ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ ان کے اسی رویہ کی وجہ سے قرآن نے ان کی تعریف کی ہے۔ اہل کتاب کے لیے بھی (اچھے ہوں یا برے) ضروری ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں۔ اس لیے کہ آپ کی بعثت تمام دنیا کے لوگوں کے لیے ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يَتَّبِعونَ الرَّسولَ النَّبِىَّ الأُمِّىَّ الَّذى يَجِدونَهُ مَكتوبًا عِندَهُم فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ يَأمُرُهُم بِالمَعروفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَهُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم فَالَّذينَ ءامَنوا بِهِ وَعَزَّروهُ وَنَصَروهُ وَاتَّبَعُوا النّورَ الَّذى أُنزِلَ مَعَهُ أُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿١٥٧﴾... سورة الاعراف

’’جو لوگ ایسے رسول نبی اُمی کی اتباع کرتے ہیں جنہیں وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو اُن پر حرام کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے انہیں دُور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نُور کی پیروی کرتے ہیں جو اُن کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

(اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ فلاح پانے کے لیے نبی کی حمایت کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ایمان لانے کے بعد آپ کی حمایت و نصرت کی جائے تو فلاح و نجات حاصل ہوتی ہے جیسے ابوطالب کی مثال ہے جس نے حمایت تو کی مگر ایمان قبول نہ کیا۔)

ایک اور مقام پر ارشاد الہٰی ہے:

﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٢٨﴾... سورة سبا

’’ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔‘‘

﴿تَبارَكَ الَّذى نَزَّلَ الفُرقانَ عَلىٰ عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعـٰلَمينَ نَذيرًا ﴿١﴾... سورة الفرقان

’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے۔‘‘

﴿لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر بعثت ثابت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ارشاد نبوی ہے:

«أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاةُ فَلْيُصَلِّ ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً» (بخاري، التیمم، ح: 335)

’’مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں، ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ لہذا میری امت کے جس آدمی کو (جہاں بھی) نماز (کا وقت) پا لے اسے وہاں نماز ادا کر لینی چاہئے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ اور مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رسالت اور سیرۃ النبی ﷺ،صفحہ:254

محدث فتویٰ

تبصرے