سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) جس سے محبت ہو اُسے بتانے کی شرعی حیثیت؟

  • 23460
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 12820

سوال

(90) جس سے محبت ہو اُسے بتانے کی شرعی حیثیت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ کے لیے محبت سے کیا مراد ہے؟ اس کی کیا فضیلت ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ آدمی جس سے محبت کرتا ہو اسے بتا بھی دے؟ بتانے میں کیا حکمت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوسروں کے بارے میں خیرخواہی کے پکیزہ جذبات کا نام محبت ہے۔ جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ محبت کی جائے، ان سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے محبت کی جانی چاہئے۔ البتہ جن لوگوں سے نفرت کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں ان سے نفرت کرنا ضروری ہے۔ یہ الحب للہ والبغض فی اللہ کا اصول احادیث میں بیان ہوا ہے۔ مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محبت کرنا حلاوت ایمان کا سبب ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ثلاثٌ من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان، من كان الله ورسوله أحبَّ إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه، كما يكره أن يقذف في النار)(بخاري، الایمان، حلاوة الایمان، ح: 16، مسلم، الایمان، بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوة الایمان، ح: 43)

’’تین خصلتیں ایسی ہیں، جن میں وہ ہوں گی وہ ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا: (1) یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے ان کے ماسوا ہر چیز (پوری کائنات) سے زیادہ محبوب ہو۔ (2) اور یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے۔ (3) اور یہ کہ وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح برا سمجھے، جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ایک آدمی کسی دوسری بستی کی طرف اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لیے نکلا تو اللہ نے اس کے راستے میں اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ بٹھا دیا، جو اُس کا انتظار کرتا رہا، جب وہ شخص اس کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: اس بستی میں میرا بھائی رہتا ہے اس کے پاس جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جس کی وجہ سے تم یہ تکلیف اٹھا رہے ہو اور اس کا بدلا اتارنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ صرف اس لیے جا رہا ہوں کہ

(أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، قَالَ : فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيهِ)(مسلم، البر والصلۃ، فضل الحب فی اللہ، ح: 2567)

’’میں اس سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں تیری طرف اللہ کا فرستادہ ہوں۔ اللہ بھی تجھ سے محبت کرتا ہوں جیسے تو اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے۔‘‘

اللہ کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنے والے قیامت کی مشکلات سے بھی محفوظ رہیں گے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله ، إمام عادل وشاب نشأ في عبادة الله ، ورجل قلبه معلق بالمساجد ، ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه ، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال إني أخاف الله . ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه ، ورجل ذكر الله خالياً ففاضت عيناه)(بخاري، الاذان، من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ، ح: 660، مسلم، الزکوٰة، فضل اخفاء الصدقة، ح: 1031)

’’سات (قسم کے) آدمی ایسے ہیں کہ اللہ انہیں اس (قیامت کے) دن جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا، اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ دے گا:

1۔ انصاف کرنے والا حکمران۔

2۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھے۔

3۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہوا ہو (مسجد کی خاص محبت اس کے دل میں ہو۔)

4۔ وہ دو آدمی جو ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں۔ اسی پر وہ باہم جمع ہوتے اور اسی پر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔

5۔ وہ آدمی جسے کوئی حسین و جمیل عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ اس کے جواب میں کہے کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں۔

6۔ وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا اور اسے چھپایا حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو علم نہیں کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

7۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (اس کے خوف سے) اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي؟ الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي)(مسلم، البر والصلۃ، فضل الحب فی اللہ، ح: 2566)

’’اللہ قیامت والے دن فرمائے گا: میری عظمت و جلالت کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔‘‘

حدیث میں الحب فى الله کو جنت میں جانے کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے:

(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا ، وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا ، أَوَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ)(مسلم، الایمان، بیان انہ لا یدخل الجنة الا المومنون، ح: 54)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے۔ جب تک ایمان نہیں لاؤ گے، اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے (صرف اللہ کے لیے) محبت نہیں کرو گے۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم اسے اختیار کرو گے تو باہم محبت کرنے لگ جاؤ گے؟ (وہ یہ کہ) تم آپس میں سلام عام کرو۔‘‘

مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو تو وہ اپنے بھائی کو بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ تاکہ دوسرا شخص بھی آگاہ ہو جائے اور وہ بھی محبت و تعاون کا ہاتھ بڑھائے، اس طرح محبت دو طرفہ ہو جائے گی۔ ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ)(ابوداؤد، الادب، اخبار الرجل الرجل بمحبته ایاہ، ح: 5124)

’’جب آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ اسے بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے، انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور آدمی وہاں سے گزرا، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں یقینا اس گزرنے والے شخص سے محبت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے اسے بتایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے بتا دو، چنانچہ وہ شخص (تیزی سے) اس کے پاس گیا اور اس سے کہا:

"إني أحبك في الله! فقال: أحبك الله الذي أحببتني له"(ابوداؤد، الادب، اخبار الرجل الرجل بمحبه ایاہ، ح: 5125)

’’میں تجھ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ اس نے جواب میں کہا: اللہ تجھ سے محبت کرے جس کے لیے تو نے مجھ سے محبت کی۔‘‘

ابو ادریس خولانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

میں دمشق کی مسجد میں گیا (تو دیکھا) کہ ایک جوان آدمی، جس کے اگلے دانت خوب چمکیلے ہیں، کے پاس لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب وہ آپس میں کسی چیز کی بابت اختلاف کرتے ہیں تو اس کے (حل کے) لیے اس سے سوال کرتے ہیں اور اپنی رائے سے رجوع کر کے اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں، چنانچہ میں نے اس جوان کی بابت پوچھا (کہ یہ کون ہے؟) تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ (صحابی) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب اگلا دن ہوا تو میں صبح سویرے ہی مسجد میں آ گیا، لیکن میں نے دیکھا کہ جلدی آنے میں بھی وہ مجھ سے سبقت لے گئے ہیں اور میں نے انہیں (وہاں) نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ پس میں ان کا انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔ میں ان کے سامنے کی طرف سے ان کے پاس آیا، انہیں سلام عرض کیا اور پھر کہا:

(إني لأحبك لله فقال ألله فقلت ألله فقال ألله فقلت ألله فقال ألله فقلت ألله قال فأخذ بحبوة ردائي فجبذني إليه وقال أبشر فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تبارك وتعالى وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في والمتزاورين في والمتباذلين في)(موطا امام مالک، الشعر، ما جاء فی المتحابین فی اللہ، ح: 1779)

’’اللہ کی قسم! میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: واقعی اللہ کی قسم! پس انہوں نے مجھے میری چادر کی گوٹ (کنارے) سے پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: خوش ہو جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تباارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت واجب ہو گئی ہے ان کے لیے جو میرے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کی ہم نشینی کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘

قولی احادیث کے علاوہ فعلی حدیث یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ایسا کرنا ثابت ہے۔ معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: معاذ! اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ معاذ! تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ کلمات کہنا ہرگز نہ چھوڑنا:

(اللَّهُمَّ أعِنَّا عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)(ابوداؤد، الوتر، فی الاستغفار، ح: 1522، نسائي، ح: 1304)

’’اللہ! میری مدد کر اس پر کہ میں تیرا ذکر، شکر اور تیری اچھی عبدت کروں۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:236

محدث فتویٰ

تبصرے