سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) سری نمازوں میں امام کا سجدہ تلاوت؟

  • 23453
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1424

سوال

(83) سری نمازوں میں امام کا سجدہ تلاوت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سری نمازوں، ظہر و عصر میں کیا امام کے لیے آیات سجدہ کی تلاوت کرنا جائز ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مقتدیوں کو مغالطہ لگ سکتا ہے، جن لوگوں کی نظر امام پر نہیں پڑتی ہو گی وہ رکوع میں جبکہ امام سجدے میں چلا جائے گا۔ کچھ علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امام آیتِ سجدہ سری نماز میں تلاوت کرے تو وہ سجدہ تلاوت نہ کرے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سری نمازوں میں قرآن مجید کی کوئی بھی سورت تلاوت کی جا سکتی ہے اور اگر دورانِ تلاوت سجدہ آ جائے تو امام سجدہ کرے۔ مقتدیوں نے اگرچہ آیت نہیں سنی ہوتی تاہم امام کی اقتداء میں وہ بھی سجدہ تلاوت کریں گے۔ بعض احادیث کے عمومی حکم سے یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب امام سجدہ کرے تم بھی سجدہ کرو۔ حالت نماز میں آیت سجدہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت نہ کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ نماز خواہ جہری ہو یا سری سجدہ تلاوت کا حکم مختلف نہیں ہے۔

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز میں سجدہ تلاوت کیا، پھر کھڑے ہو گئے، پھر رکوع کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ آپ نے تنزیل السجدۃ (سورۃ السجدۃ) تلاوت کی تھی۔‘‘

(ابوداؤد، الصلاة، قدر القراءہ فی صلاة الظھر والعصر، ح: 807، مسند احمد 83/2)

ملحوظہ: اس حدیث کی سند کو کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے تاہم امام حاکم رحمہ اللہ (1/22) نے اسے شیخین (بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم سے موافقت کی ہے۔

ظہر و عصر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی مقدار کے اندازے کو اسی سورت کے حوالے سے بتایا گیا ہے، ’’ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ ہم ظہر و عصر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ کرتے تھے تو معلوم ہوا کہ آپ ظہر کی پہلی دو رکعت میں اتنی دیر قیام کرتے جتنی دیر الم تنزیل السجدۃ پڑھی جائے اور پچھلی دو رکعت میں اس کا آدھا اور عصر کی پہلی دو رکعت میں ظہر کی پچھلی دو رکعت کے برابر اور عصر کی پچھلی دو رکعت میں اس کا آدھا۔‘‘(مسلم، الصلاة، القراءة فی الظھر والعصر، ح: 452، ابوداؤد، الصلاة، تکفیف الاخریین، ح؛ 804)

یہ اشکال کہ مقتدیوں کو رکوع کا مغالطہ لگ سکتا ہے کیونکہ انہوں نے آیت سجدہ کی تلاوت نہیں سنی ہوتی، کوئی حیثیت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ مغالطہ تو جہری نمازوں میں بھی لگ سکتا ہے، اسی لیے تو عجمیوں کو بالخصوص پہلے بتانا پڑتا ہے کہ فلاں رکعت میں سجدہ تلاوت ہو گا!

مزید برآں سری نمازوں میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کوئی آیت بلند آواز سے پڑھ لیتے تھے۔ ’’ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی پہلی دو رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور کوئی اور سورت پڑھتے تھے، کبھی کبھی آپ کوئی آیت ہمیں سنا بھی دیا کرتے تھے۔‘‘(بخاري، الاذان، اذا اسمع الامام الایة، ح: 778)

یہ ظاہر ہے کہ بلند آواز سے پڑھی جانے والی آیت سجدہ تلاوت والی آیت بھی ہو سکتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:218

محدث فتویٰ

تبصرے