سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) کیا سجدہ تلاوت کے لیے باوضو اور قبلہ رخ ہونا ضروری ہے؟

  • 23441
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3145

سوال

(71) کیا سجدہ تلاوت کے لیے باوضو اور قبلہ رخ ہونا ضروری ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا سجدہ تلاوت کرنے کے لیے باوضو اور قبلہ رخ ہونا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سجدہ تلاوت کے لیے باوضو اور قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں۔ باوضو اور قبلہ رخ ہونا نماز کی شرائط میں سے ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سجدہ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے، لہذا اس کے لیے نماز کی شرائط مقرر نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وضو کے بغیر بھی جائز ہے۔ (مجموع فتاویٰ 165/23)

امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (340/2) میں اسی کو ترجیح دی ہے۔

’’ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کے وقت سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔‘‘(بخاري، سجود القرآن، سجود المسلمین مع المشرکین والمشرک نجس لیس له وضوء، ح: 1071)

ظاہر ہے کہ اس وقت سب مسلمان باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ مشرک تو ناپاک ہیں، ان کا وضو کیونکر ہو سکتا ہے!

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی موجودگی میں سجدہ والی آیت پڑھتے اور سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس طرح سجدہ کرتے کہ پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی جس پر سجدہ کرتے۔‘‘ (ایضا: 1075)

اس قدر ہجوم میں اکٹھے سجدہ کرتے وقت نہ تو ہر شخص باوضو ہوتا ہے اور نہ قبلہ رخ۔

’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت بغیر وضو کے ہی کر لیتے تھے۔‘‘ (بخاري، سجود القرآن، سجود المسلمین)

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ جو بے وضو شخص آیت سجدہ سنے وہ سجدہ کرے، خواہ جس سمت بھی اس کا چہرہ ہو۔ (المغنی 175/2)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جب وضو کرنا مشکل ہو تو اس روایت سے بغیر وضو کے سجدہ تلاوت کرنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔ (فتح الباری)

اس سے معلوم ہوتا ہے اگر وضو کرنے میں مشقت نہ ہو تو سجدہ تلاوت کے لیے وضو کرنا افضل ہے۔ بلکہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

سجدہ تلاوت کے لیے وہی شرط عائد کی جائے جو نفل نماز کے لیے لگائی جاتی ہے۔ یعنی حدث اور نجاست سے طہارت، ستر ڈھانپنا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا۔ اس میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں سوائے اس روایت کے جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حائضہ اگر آیتِ سجدہ سنے تو (صرف) اپنے سر سے اشارہ کر دے۔ (المغنی 175/2)

مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی سجدہ تلاوت کے لیے انہی شرائط کے قائل ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی 219/2)

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سجدہ تلاوت کے لیے طہارت ضروری ہے۔ اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے اور سواری پر قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں۔ جدھر بھی رخ ہو سجدہ کر لینا چاہئے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ سجدہ تلاوت کے لیے باوضو اور قبلہ رُو ہونا ضروری نہیں تاہم باوضو اور قبلہ رُو ہو کر سجدہ تلاوت کرنا افضل ہے۔ امام مسجد نبوی ابوبکر جابر جزائری لکھتے ہیں:

اس میں زیادہ ثواب ہے کہ سجدہ کرنے والا باوضو اور قبلہ رخ ہو کر سجدہ کرے۔ (منھاج المسلم، ص: 385)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:210

محدث فتویٰ

تبصرے