السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴿٨﴾ (البقرۃ 2/8)) کی وضاحت میں ایک اردو تفسیر میں لکھا ہے: مِنَ النَّاسِ فرمانے میں لطیف رمز یہ ہے کہ یہ گروہ صفات و انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف اور خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں۔ مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیاء کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے۔ بعض مفسرین نے فرمای: مِنَ النَّاسِ سامعین کو تعجب دلانے کے لیے فرمایا گیا کہ ایسے فریبی مکاراور ایسے احمق بھی آدمیوں میں ہیں۔‘‘ (خزائن العرفان)
اس تفسیر کی روشنی میں درج ذیل سوال بنتے ہیں۔
1۔ آدمی کا آدمی کہہ کر تذکرہ کرنے سے کیا اس کی بہتر صفات کی نفی ہوتی ہے؟ یا کیا کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے؟
2۔ کیا قرآن نے انبیائے کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر کہا ہے؟
3۔ کیا انبیاء علیہم السلام کو بشر کہنا بے ادبی ہے؟
4۔ کیا انبیاء علیہم السلام کو بشر کہنا کفار کا دستور ہے؟
5۔ کیا مِنَ النَّاسِ میں تعجب کا پہلو موجود ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان اشکالات کی علیحدہ علیحدہ تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ کیا آدمی کو آدمی کہہ کر تذکرہ کرنے سے اس کی بہتر صفات کی نفی ہوتی ہے؟ کیا کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے؟ تو واضح رہنا کہ مِنَ النَّاسِ کے الفاظ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ ان میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی اور ان سے بہتر صفات کی نفی لازم ہے۔ انسانوں کا ذکر انسان کے الفاظ سے نہ کیا جاتا تو انہیں کیا کہہ کر پکارا جاتا؟ کسی نہ کسی نام سے تو آخر ان کا تذکرہ کیا جانا ہی تھا، ان کے مومن نہ ہونے کی بات تو بعد میں کی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر ان کی صفات زیر بحث آتی ہیں۔ جب تک الناس کی وضاحت نہ کی جائے تو یہ غیر معین ہی رہتے ہیں۔ اگر اس سے بہتر صفات کی نفی ہوتی ہو تو اس جیسی دیگر آیات میں بھی صفات کی نفی کی جائے گی۔ جبکہ بہت سی ایسی آیات میں صفات کی نفی محض اس بنیاد پر نہیں کی جا سکتی کہ صرف الناس یا الرجال کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ درج ذیل آیات پر اگر غور کیا جائے تو پہلا سوال حل ہو جاتا ہے:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ﴾ (البقرۃ: 2/13) میں الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کو معیار قرار دیا گیا۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت تھی۔ تو کیا الناس کے لفظ سے یہ کہا جائے گا کہ وہ بہتر صفات سے عاری تھے؟
اسی طرح﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ (القبرۃ 2/207)) (ایضا: 207) میں الناس پر ہی حکم نہیں لگایا جائے گا بلکہ اس کے سیاق کی روشنی میں صفات کا اثبات کیا جائے گا۔
﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ (النصر 110/1،2)) میں بھی الناس کی صفات کا تعین سیاق و سباق سے کیا جائے گا ورنہ صرف الناس کے لفظ سے انہیں صفات سے عاری یا صفات سے متصف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
﴿اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ﴾(الحج: 22/75) میں الناس کو بغیر صفات کے بیان کیا ہے البتہ يَصْطَفِي اور رُسُلًا کے قرینے سے یہ الناس اچھی صفات کے حامل قرار پائیں گے۔
بعض آیات میں تو انبیاء علیہم السلام اور دیگر اچھے افرادکے لیے رجل، رجال، بشر اور انسان وغیرہ الفاظ ستعمال کیے گئے ہیں۔ اگر ان الفاظ سے کمالات کی نفی نکلتی ہوتی تو ایسے الفاظ صالحین کے لیے استعمال نہ کیے جاتے۔ اس سلسلے کی چند آیات درج ذیل ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ أَكانَ لِلنّاسِ عَجَبًا أَن أَوحَينا إِلىٰ رَجُلٍ مِنهُم...﴿٢﴾... سورة يونس
یہاں رجل کا لفظ نکرہ استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صفات کے بیان سے خالی ہے مگر اوحينا سباق سے رجل کو بہتر صفات سے معریٰ ماننا درست نہیں ہو گا۔
اسی قسم کے الفاظ بعض دیگر پیغمبروں کے بارے میں استعمال کیے گئے ہیں۔ نوح اور ھود علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَوَعَجِبتُم أَن جاءَكُم ذِكرٌ مِن رَبِّكُم عَلىٰ رَجُلٍ مِنكُم ...﴿٦٣﴾... سورةالأعراف
’’اور کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے آدمی کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کا ہے، کوئی نصیحت کی بات آ گئی۔‘‘
﴿وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم مِن أَهلِ القُرىٰ...﴿١٠٩﴾... سورة يوسف
’’آپ سے پہلے ہم نے بستیوں والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل کرتے رہے۔‘‘
﴿وَما أَرسَلنا قَبلَكَ إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧﴾... سورة الأنبياء
’’آپ سے پہلے جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے، پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تم نہیں جانتے ہو۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام کے ایک بہی خواہ کے لیے بھی رجل کا لفظ (صفات سے خالی) استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجاءَ رَجُلٌ مِن أَقصَا المَدينَةِ يَسعىٰ قالَ يـٰموسىٰ إِنَّ المَلَأَ يَأتَمِرونَ بِكَ لِيَقتُلوكَ فَاخرُج إِنّى لَكَ مِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢٠﴾... سورة القصص
’’شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: موسیٰ! یہاں کے سردار آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں، لہذا آپ جلدی سے نکل جائیں، میں آپ کے خیرخواہوں میں سے ہوں۔‘‘
اسی طرح کے ایک اور خیرخواہ کا ذکر قرآن نے یوں کیا ہے:
﴿وَجاءَ مِن أَقصَا المَدينَةِ رَجُلٌ يَسعىٰ قالَ يـٰقَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلينَ ﴿٢٠﴾... سورة يس
’’اور ایک آدمی شہر کے آخری حصے سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا: میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔‘‘
جب ملائکہ سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کا تذکرہ کیا تو محض بشر کہہ کر کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذ قالَ رَبُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى خـٰلِقٌ بَشَرًا ...﴿٢٨﴾... سورة الحجر
’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں ایک بشر (انسان) کو پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
انسانوں کے اچھے برے انجام کی خبر دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض انسان کہہ کر مخاطب کیا:
﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلىٰ رَبِّكَ كَدحًا فَمُلـٰقيهِ ﴿٦﴾... سورةالانشقاق
’’انسان! تُو اپنے رب سے ملاقات تک کوشش، تمام کام اور محنت کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘
﴿فَأَمَّا الإِنسـٰنُ إِذا مَا ابتَلىٰهُ رَبُّهُ فَأَكرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقولُ رَبّى أَكرَمَنِ ﴿١٥﴾ وَأَمّا إِذا مَا ابتَلىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيهِ رِزقَهُ فَيَقولُ رَبّى أَهـٰنَنِ ﴿١٦﴾... سورة الفجر
’’انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا۔ اور جب وہ اسے آزماتا ہے، اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (مجھے ذلیل کیا۔)‘‘
لفظ الانسان کے سیاق کو جب تک ملاحظہ نہ کیا جائے تب تک اس کے صاحب، صفات و کمالات یا بالعکس کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
2۔ کیا قرآن نےانبیاء کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر کہا ہے؟
قرآن مجید میں کوئی بھی صریح دلیل نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جن لوگوں نے بشر کہا وہ بشر کہنے کی وجہ سے کافر ہوئے تھے۔ بلکہ وہ کافر اس بنیاد پر ٹھہرے تھے کہ وہ بشر کو رسول نہیں مانتے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلَم يَأتِكُم نَبَؤُا۟ الَّذينَ كَفَروا مِن قَبلُ فَذاقوا وَبالَ أَمرِهِم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٥﴾ ذٰلِكَ بِأَنَّهُ كانَت تَأتيهِم رُسُلُهُم بِالبَيِّنـٰتِ فَقالوا أَبَشَرٌ يَهدونَنا فَكَفَروا وَتَوَلَّوا وَاستَغنَى اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِىٌّ حَميدٌ ﴿٦﴾... سورة التغابن
’’کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی؟ جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا اور جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا بشر ہماری راہنمائی کریں گے؟ لہذا اُنہوں نے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا اور اللہ نے بھی بے نیازی کی، اور اللہ تو ہے ہی بہت بے نیاز سب خوبیوں والا۔‘‘
(أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا) پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بشر کو ہادی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے جیسا کہ أَبَشَرٌ میں ھمزہ استفہام انکاری سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اسی وجہ سے کافر ہوئے تھے نیز انہوں نے اعراض کیا تھا۔ ہر زمانے میں جن لوگوں نے پیغمبروں کو تسلیم نہیں کیا اس کا سبب یہ تھا کہ وہ کہتے کہ بشر رسول نہیں ہونا چاہئے:
﴿وَما مَنَعَ النّاسَ أَن يُؤمِنوا إِذ جاءَهُمُ الهُدىٰ إِلّا أَن قالوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسولًا ﴿٩٤﴾ قُل لَو كانَ فِى الأَرضِ مَلـٰئِكَةٌ يَمشونَ مُطمَئِنّينَ لَنَزَّلنا عَلَيهِم مِنَ السَّماءِ مَلَكًا رَسولًا ﴿٩٥﴾... سورة الإسراء
’’لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟ آپ کہہ دیجیے کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ بشر ہی بشر کی راہنمائی کے لیے مقام نبوت و رسالت پر سرفراز ہوئے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ﴿٧٩﴾... سورة آل عمران
’’کسی بشر کو، جسے اللہ کتاب و حکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم اپنے کتاب سکھانے اور پڑھنے کے سبب رب کے ہو جاؤ۔‘‘
اگر صرف بشر کہنے کی وجہ سے قرآن نے لوگوں کو کافر کہا تھا تو پھر انبیاء علیہم السلام نے ان کی اس بات کی تغلیط کر کے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم بشر نہیں ہیں بلکہ الٹا وہ کفار کی اس بات کو تاکیدا تسلیم کرتے رہے۔ کفار نے رسولوں سے کہا:
﴿ إِن أَنتُم إِلّا بَشَرٌ مِثلُنا...﴿١٠﴾... سورة ابراهيم
’’تم تو ہمارے جیسے ہی بشر ہو۔‘‘
اس کے جواب میں پیغمبروں نے یہ نہیں کہا کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ:
﴿قالَت لَهُم رُسُلُهُم إِن نَحنُ إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم...﴿١١﴾... سورة ابراهيم
’’ان سے ان کے رسولوں نے کہا؛ بلاشبہ ہم تمہارے جیسے ہی بشر ہیں۔‘‘
جہاں تک صفات و کمالات کی بات ہے تو کوئی دو انسان بھی اس اعتبار سے برابر نہیں ہوتے چہ جائیکہ نبی اور غیر نبی برابر ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بشر ہونے کا ہی جا بجا اعلان کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم...﴿١١٠﴾... سورة الكهف
"کہیے کہ میں تو تمہارے جیسا ہی بشر ہوں۔‘‘
﴿هَل كُنتُ إِلّا بَشَرًا رَسولًا ﴿٩٣﴾... سورة الإسراء
’’میں تو بشر رسول ہی ہوں۔"
بشر پر وحی کے نزول کو تسلیم نہ کرنا، جیسا کہ کفار کا شیوہ تھا، اللہ تعالیٰ کی بھی ناقدری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدرِهِ إِذ قالوا ما أَنزَلَ اللَّهُ عَلىٰ بَشَرٍ مِن شَىءٍ قُل مَن أَنزَلَ الكِتـٰبَ الَّذى جاءَ بِهِ موسىٰ...﴿٩١﴾... سورة الانعام
’’اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔ آپ یہ کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جسے موسیٰ لائے تھے۔‘‘
اس آیت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ وحی بشر پر ہی نازل ہوتی رہی ہے وہاں پر یہ بھی معلوم ہوا کہ جلیل القدر پیغمبر موسیٰ علیہ السلام بھی بشر ہی تھے۔
3۔ کیا انبیاء علیہم السلام کو بشر کہنا بے ادبی ہے؟
انبیاء کرام کو بشر کہنا ہرگز بے ادبی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو بشر نہ کہتے اور نہ پیغمبر ہی اپنے آپ کو بشر تسلیم کرتے (جیسا کہ مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے۔)
4۔ کیا انبیاء کرام کو بشر کہنا کفار کا دستور ہے؟
کفار انبیاء و رسل علیہم السلام کو یقینا بشر کہتے تھے مگر انہیں ایسا کہنے میں غلط نہیں کہا گیا۔ ان کا پیغمبروں کو بشر کہنا اس لیے تھا کہ وہ بشریت کے لیے نبوت کو محال سمجھتے تھے (جیسا کہ پیچھے مدلل ثابت کیا جا چکا ہے۔) اس سلسلے کی دیگر آیات سے، جن میں کفار نے انبیاء کو بشر کہا، بھی ثابت ہوتا ہے کہ کفار اس بات کو محال سمجھتے تھے کہ کوئی ان جیسا بشر رسول پہو کر ان پر فوقیت حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ان آیات کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ چند آیات درج ذیل ہیں:
نوح علیہ السلام کو لوگوں نے ان کے بشر ہونے کی وجہ سے نبی تسلیم نہیں کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَقالَ المَلَأُ الَّذينَ كَفَروا مِن قَومِهِ ما نَرىٰكَ إِلّا بَشَرًا مِثلَنا وَما نَرىٰكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذينَ هُم أَراذِلُنا بادِىَ الرَّأىِ وَما نَرىٰ لَكُم عَلَينا مِن فَضلٍ بَل نَظُنُّكُم كـٰذِبينَ ﴿٢٧﴾... سورة هود
’’اس کی قوم کے کافر سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسے بشر ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں، جو سطحی سوچ والے ہیں (جو تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔‘‘
﴿فَقالَ المَلَؤُا۟ الَّذينَ كَفَروا مِن قَومِهِ ما هـٰذا إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم يُريدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيكُم وَلَو شاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلـٰئِكَةً ما سَمِعنا بِهـٰذا فى ءابائِنَا الأَوَّلينَ ﴿٢٤﴾... سورة المؤمنون
’’اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی بشر ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا، ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں۔‘‘
ثمود نے صالح علیہ السلام سے کیا کہا تھا، ملاحظہ کریں:
﴿فَقالوا أَبَشَرًا مِنّا وٰحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنّا إِذًا لَفى ضَلـٰلٍ وَسُعُرٍ ﴿٢٤﴾... سورةالقمر
’’تو وہ کہنے لگے: کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی کرنے لگ جائیں تب تو ہم گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔‘‘
نیز دیکھیے ان کا﴿مَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾کہنا۔ (الشعراء: 26/154)
شعیب علیہ السلام کو بھی انہوں نے پیغمبر کی بجائے جادوگر کہہ کر اپنے جیسا قرار دیا:
﴿وَما أَنتَ إِلّا بَشَرٌ مِثلُنا وَإِن نَظُنُّكَ لَمِنَ الكـٰذِبينَ ﴿١٨٦﴾... سورة الشعراء
اصحاب القریۃ کی طرف کئی رسول بھیجنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاضرِب لَهُم مَثَلًا أَصحـٰبَ القَريَةِ إِذ جاءَهَا المُرسَلونَ ﴿١٣﴾ إِذ أَرسَلنا إِلَيهِمُ اثنَينِ فَكَذَّبوهُما فَعَزَّزنا بِثالِثٍ فَقالوا إِنّا إِلَيكُم مُرسَلونَ ﴿١٤﴾ قالوا ما أَنتُم إِلّا بَشَرٌ مِثلُنا وَما أَنزَلَ الرَّحمـٰنُ مِن شَىءٍ إِن أَنتُم إِلّا تَكذِبونَ ﴿١٥﴾ قالوا رَبُّنا يَعلَمُ إِنّا إِلَيكُم لَمُرسَلونَ ﴿١٦﴾... سورةيس
’’اور آپ ان کے سامنے ایک مثال بستی والوں کی مثال بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے۔ جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا، تو اُن لوگوں نے دونوں کو جھٹلایا، تو ہم نے تیسرے سے تائید کی تو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔ تم نرا جھوٹ بولتے ہو۔ انہوں نے کہا: ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بےشک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔‘‘
فرعونیوں نے موسیٰ اور ھارون علیہم السلام کے بارے میں کیا کہا تھا، ملاحظہ کیجیے:
﴿فَقالوا أَنُؤمِنُ لِبَشَرَينِ مِثلِنا وَقَومُهُما لَنا عـٰبِدونَ ﴿٤٧﴾... سورة المؤمنون
’’وہ کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں؟ حالانکہ خود ان کی قوم ہمارے ماتحت ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے کفار آپ کی تعلیم کو جادو کہتے:
﴿هَل هـٰذا إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم أَفَتَأتونَ السِّحرَ وَأَنتُم تُبصِرونَ ﴿٣﴾... سورة الأنبياء
’’یہ تم ہی جیسا بشر ہے پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی جادو میں آ جاتے ہو۔‘‘
کفار صرف پیغمبروں کو بشر ہی نہیں کہتے تھے بلکہ انہیں اور بھی کئی صفات سے متصف قرار دیتے تھے اور ان کی وجہ سے نبوت و رسالت کے منکر ہوتے تھے۔ جیسا کہ ایک پیغمبر کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقالَ المَلَأُ مِن قَومِهِ الَّذينَ كَفَروا وَكَذَّبوا بِلِقاءِ الءاخِرَةِ وَأَترَفنـٰهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ما هـٰذا إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم يَأكُلُ مِمّا تَأكُلونَ مِنهُ وَيَشرَبُ مِمّا تَشرَبونَ ﴿٣٣﴾ وَلَئِن أَطَعتُم بَشَرًا مِثلَكُم إِنَّكُم إِذًا لَخـٰسِرونَ ﴿٣٤﴾... سورة المؤمنون
’’اور قوم کے سرداروں نے جواب دیا، جو کفر کرتے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں خوشحال کر رکھا تھا، کہ یہ تو تم جیسا ہی بشر ہے، تمہاری خوراک جیسی ہی خوراک کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی ہی یہ پیتا ہے، اگر تم نے اپنے جیسے ہی انسان کی تابعداری کی تو بےشک تم سخت خسارے والے ہو گے۔‘‘
کفار نے پیغمبر کے لیے ياكل (وہ کھاتا ہے) اور ويشرب (وہ پیتا ہے) کے الفاظ استعمال کیے تو کیا ہم اسے کفار کا دستور کہہ کر مسترد کر دیں گے۔
اسی طرح لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہ:
﴿مالِ هـٰذَا الرَّسولِ يَأكُلُ الطَّعامَ وَيَمشى فِى الأَسواقِ ...﴿٧﴾... سورة الفرقان
’’یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔‘‘
ان کا خیال تھا کہ رسول کو نہ تو کھانا کھانے کی حاجت ہونی چاہئے اور نہ کاروبارِ زندگی کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے کفار کا دستور قرار دے کر یہ کہیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانا نہیں کھاتے تھے اور نہ کوئی کاروبار کرتے تھے؟ فافهم وتدبر
بلکہ اس چیز کو بشریت کی طرح تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کے لیے ثابت کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما أَرسَلنا قَبلَكَ مِنَ المُرسَلينَ إِلّا إِنَّهُم لَيَأكُلونَ الطَّعامَ وَيَمشونَ فِى الأَسواقِ ...﴿٢٠﴾... سورة الفرقان
’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے۔‘‘
یعنی باقی انسانوں کی طرح ضروریاتِ زندگی کے محتاج تھے۔
ایک اور مقام پر انبیاء و رسل علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛
﴿وَما جَعَلنـٰهُم جَسَدًا لا يَأكُلونَ الطَّعامَ وَما كانوا خـٰلِدينَ ﴿٨﴾... سورة الأنبياء
’’ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے ہی تھے۔‘‘
عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت سے چونکہ نصاریٰ منکر تھے، اس لیے صراھت سے ان کے کھانا کھانے کا تذکرہ کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا المَسيحُ ابنُ مَريَمَ إِلّا رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدّيقَةٌ كانا يَأكُلانِ الطَّعامَ انظُر كَيفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الءايـٰتِ ثُمَّ انظُر أَنّىٰ يُؤفَكونَ ﴿٧٥﴾... سورة المائدة
’’مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو چکے ہیں۔ ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں، دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھایا کرتے تھے، آپ دیکھیے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں، پھر غور کیجیے کہ کس طرح وہ پھرے جاتے ہیں۔‘‘
5۔ کیا من الناس میں تعجب کا پہلو موجود ہے؟
(من الناس) میں تعجب کا دپور دُور تک کوئی اشارہ تک موجود نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ جس کا اشارہ تک نہیں سے یہاں سے برآمد کیا جا رہا ہے!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب