السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ارض و سماء میں سے کس کی تخلیق پہلے ہوئی؟ البقرۃ: 2/29 اور سورۃ النازعات آیات 27-30 کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں جہاں بُعد زمانی کی صراحت ہے وہاں پر زمین کی پیدائش کا ذکر آسمانوں کی تخلیق کے تذکرے سے پہلے کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُل أَئِنَّكُم لَتَكفُرونَ بِالَّذى خَلَقَ الأَرضَ فى يَومَينِ وَتَجعَلونَ لَهُ أَندادًا ذٰلِكَ رَبُّ العـٰلَمينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فيها رَوٰسِىَ مِن فَوقِها وَبـٰرَكَ فيها وَقَدَّرَ فيها أَقوٰتَها فى أَربَعَةِ أَيّامٍ سَواءً لِلسّائِلينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ استَوىٰ إِلَى السَّماءِ وَهِىَ دُخانٌ فَقالَ لَها وَلِلأَرضِ ائتِيا طَوعًا أَو كَرهًا قالَتا أَتَينا طائِعينَ ﴿١١﴾فَقَضىٰهُنَّ سَبعَ سَمـٰواتٍ فى يَومَينِ وَأَوحىٰ فى كُلِّ سَماءٍ أَمرَها وَزَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنيا بِمَصـٰبيحَ وَحِفظًا ذٰلِكَ تَقديرُ العَزيزِ العَليمِ ﴿١٢﴾... سورة فصلت
’’آپ کہہ دیجیے! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دئیے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی نے کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دُھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے۔ دونوں نے عرض کی: ہم بخوشی حاضر ہیں۔ پس دو دن میں سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی، یہ تدبیر خوب غالب اور بھرپور علم رکھنے والے کی ہے۔‘‘
بُعدِ زمانی کی وضاحت کے بغیر قرآن میں ایک مقام پر آسمان و زمین کی تخلیق کا ذکر یوں کیا گیا:
﴿تَنزيلًا مِمَّن خَلَقَ الأَرضَ وَالسَّمـٰوٰتِ العُلَى ﴿٤﴾... سورة طه
’’اس (قرآن) کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا۔‘‘
زمانی صراحت کے بغیر زمین و آسمان کی تخلیق کے ضمن میں قرآن کے اکثر مقامات پر پہلے آسمانوں کا تذکرہ ہے۔ بہت سی آیات میں (خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ) کے الفاظ موجود ہیں۔
(دیکھیے الانعام: 6/1،73، الاعراف: 7/54، یونس: 10/3، ھود: 11/7، ابراہیم: 14/32، النحل: 16/3، بنی اسرائیل: 17/99، الفرقان: 25/59، النمل: 27/29، العنکبوت: 29/44، الروم: 30/8، السجدۃ: 32/4، یٰس: 36/81، الزمر: 39/5، الزخرف: 43/9، الجاثیۃ: 45/22، الحقاف: 46/33، الحدید: 57/4، التغابن: 64/3، الطلاق: 65/12، البقرۃ: 2/164، آل عمران: 3/190-191، المومن: 40/57، الشوریٰ: 42/29)
لیکن قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بھی ایسی موجود نہیں ہے جو صراحت سے یہ بیان کرتی ہو کہ زمین آسمانوں کے بعد پیدا کی گئی ہے۔ البتہ ایک مقام پر قرآن مجید میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ زمین کو آسمانوں کی تخلیق کے بعد بچھایا گیا (نہ کہ بعد میں پیدا کیا گیا)، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ءَأَنتُم أَشَدُّ خَلقًا أَمِ السَّماءُ بَنىٰها ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمكَها فَسَوّىٰها ﴿٢٨﴾ وَأَغطَشَ لَيلَها وَأَخرَجَ ضُحىٰها ﴿٢٩﴾ وَالأَرضَ بَعدَ ذٰلِكَ دَحىٰها ﴿٣٠﴾ أَخرَجَ مِنها ماءَها وَمَرعىٰها ﴿٣١﴾... سورة النازعات
’’کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔ اس کی لندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو نکالا۔ اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔ اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔‘‘
ظاہر ہے خلق (پیدا کرنے) اور دحى (ہموار بچھانے) میں فرق ہے۔ زمین کو پیدا تو آسمانوں سے پہلے کیا گیا البتہ اسے رہائش کے قابل آسمانوں کی تخلیق کے بعد بنایا گیا جیسا کہ مذکورہ بالا مقام اور قرآن کے دیگر مقامات سے معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالسَّماءَ بَنَينـٰها بِأَيي۟دٍ وَإِنّا لَموسِعونَ ﴿٤٧﴾ وَالأَرضَ فَرَشنـٰها فَنِعمَ المـٰهِدونَ ﴿٤٨﴾... سورة الذاريات
’’آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا ہے اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیا ہے۔ پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿أَلَم تَرَوا كَيفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبعَ سَمـٰوٰتٍ طِباقًا ﴿١٥﴾ وَجَعَلَ القَمَرَ فيهِنَّ نورًا وَجَعَلَ الشَّمسَ سِراجًا ﴿١٦﴾ وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِنَ الأَرضِ نَباتًا ﴿١٧﴾ ثُمَّ يُعيدُكُم فيها وَيُخرِجُكُم إِخراجًا ﴿١٨﴾ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ بِساطًا ﴿١٩﴾ لِتَسلُكوا مِنها سُبُلًا فِجاجًا ﴿٢٠﴾... سورة نوح
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اوپر تلے کس طرح سات آسمان پیدا کر دیے ہیں۔ اور ان میں چاند کو خوب جگمگاتا بنایا ہے اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے۔ اور تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے۔ (اور پیدا کیا ہے) پھر تمہیں اسی میں لوٹائے گا اور پھر (ایک خاص طریقہ سے) نکالے گا۔ اور تمہارے لیے زمین کو اللہ نے فرش بنا دیا ہے تاکہ تم اس کی کشادہ راہوں میں چلو پھرو۔‘‘
آسمانوں کی تخلیق و تزئین کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمـٰوٰتٍ طِباقًا ما تَرىٰ فى خَلقِ الرَّحمـٰنِ مِن تَفـٰوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ هَل تَرىٰ مِن فُطورٍ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارجِعِ البَصَرَ كَرَّتَينِ يَنقَلِب إِلَيكَ البَصَرُ خاسِئًا وَهُوَ حَسيرٌ ﴿٤﴾ وَلَقَد زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنيا بِمَصـٰبيحَ وَجَعَلنـٰها رُجومًا لِلشَّيـٰطينِ وَأَعتَدنا لَهُم عَذابَ السَّعيرِ ﴿٥﴾... سورة الملك
’’جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ تو (اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے جابطگی نہ دیکھے گا، دوبارہ (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے۔ پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی۔ بےشک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آرستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے (دوزخ کا) جلانے والا عذاب تیار کر دیا ہے۔‘‘
چند آیات کے بعد زمین کے قابلِ سکونت بنانے کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں کرتے ہیں:
﴿هُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ ذَلولًا فَامشوا فى مَناكِبِها وَكُلوا مِن رِزقِهِ وَإِلَيهِ النُّشورُ ﴿١٥﴾... سورة الملك
’’وہی ہستی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو پست و مطیع کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ (النازعات: 79/30) اور سورۃ حم السجدۃ (آیات: 9-12) کی روشنی میں زمین و آسمان کی تخلیق پر اشکال ظاہر کیا تو آپ نے فرمایا: زمین کو دو دن میں پیدا کیا، اس کا مطلب ہے کہ اسے پھیلایا نہیں (صرف اس کا مادہ پیدا کیا) پھر آسمان کو پیدا کیا اور دو دن میں اسے برابر کیا (ان کے طبقات مرتب کیے) اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور اس کا پھیلانا یہ ہے کہ اس میں سے پانی نکالا، گھاس چارہ پیدا کیا، پہاڑ، جانور، اونٹ اور ٹیلے وغیرہ پیدا کیے۔ (بخاری، التفسیر، تفسیر سورۃ حم السجدۃ)
(ثم) (پھر) اور ﴿بَعْدَ ذَٰلِكَ﴾کا مفہوم اگر ’’اس کے علاوہ‘‘ لے لیا جائے تو ارض و سماء کی تخلیق میں پہلے بعد کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسی موقف کو سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اختیار کیا ہے۔ سورۃ النازعات کی آیت ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس کے بعد زمین کو بچھانے‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں ’’پھر یہ بات غور طلب ہے۔‘‘ اس سے مقصود اِن دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن میں موجود ہیں۔ مثلا سورۃ قلم میں فرمایا:
﴿عُتُلٍّ بَعدَ ذٰلِكَ زَنيمٍ ﴿١٣﴾... سورة القلم
’’جفاکار اور اس کے بعد بداصل۔‘‘
اس کا مطلب نہیں کہ پہلے وہ جفاکار بنا اور اس کے بعد بداصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفاکار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بداصل بھی ہے۔
اسی طرح سورۃ البلد میں فرمایا:
﴿فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾....﴿ثُمَّ كانَ مِنَ الَّذينَ ءامَنوا ...﴿١٧﴾... سورة البلد
’’غلام آزاد کرے ۔۔ پھر ایمان لانے والوں میں سے ہوا۔‘‘
اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے، پھر ایمان لائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اورآسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں، جیسے سورۃ بقرۃ آیت 29 میں ہے، اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے، جیسے ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں، یہ دراصل تضاد نہیں ہے۔ ان مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں، بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں، اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو اُن نعمتوں کا احساس دلایا جائے جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن 244/6، 245)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب