السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا یا كُن فَيَكُونُ سے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ...﴿٥٤﴾... سورة الاعراف
’’تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔‘‘
(نیز دیکھیے ھود: 11/7، الحدید: 57/4)
البتہ آسمانوں اور زمین کے درمیان جو کچھ پیدا کیا گیا ہے وہ انہی چھ دنوں کے دوران تخلیق کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَد خَلَقنَا السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ ﴿٣٨﴾... سورة ق
’’یقینا ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں۔‘‘
اس کے علاوہ یہ مضمون الفرقان: 25/59، السجدۃ: 32/4 وغیرھا سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔
آسمانوں اور زمینوں کا چھ دنوں میں پیدا کرنا كُن فَيَكُونُ کے اصول کے منافی نہیں ہے۔ كُن فَيَكُونُ سے کسی چیز کا فوری اور اسی وقت ہونا ضروری نہیں ٹھہرتا۔ كُن فَيَكُونُ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں، جب کسی کام کو فوری کرنا چاہتا ہے تو فوری ہو جاتا ہے جبکہ کسی کام کے کرنے کا وقت مقرر کرے تو وہ اس مدت مقررہ میں ہو جاتا ہے کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن مجید میں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کلمہ كن سے پیدا کیا۔ حالانکہ ان کی پیدائش کے واقعہ کی تفصیل پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت کا عمل کافی وقت میں مکمل ہوا۔ پہلے فرشتے نے حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت سنائی، اس پر اس سے کافی گفتگو ہوئی۔ بعد ازاں عیسیٰ علیہ السلام کی بطنِ مادر میں پرورش شروع ہوئی۔ حضرت مریم مَكَانًا قَصِيًّا (دُور کے مقام) پر چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مریم: 16/35) اب دیکھیے عیسیٰ علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ مَثَلَ عيسىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٥٩﴾... سورة آل عمران
’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! تو وہ ہو گیا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کو جیسے، جب اور جتنے وقت میں کرنا چاہے وہ کام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور حکمت کے مطابق ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿بَديعُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَإِذا قَضىٰ أَمرًا فَإِنَّما يَقولُ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿١١٧﴾... سورة البقرة
’’وہ زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب