السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید میں جو یہ ذکر ہوا ہے کہ "ہم ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔" اس کا کیا مطلب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان
"مگر جو لوگ توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
گناہوں یا بدیوں کو نیکیوں سے بدل دینے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدل دیتا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کیے تھے۔ اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عطا کی۔
عطاء بن رباح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق دنیوی زندگی سے ہے۔ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملی، مومنوں سے لڑنے کی بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں کی بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کیے۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گناہ کے بدلے ثواب کے کام کرنے لگے۔ شرک کے بدلے توحید و اخلاص ملا۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔
گناہوں کے نیکیوں میں بدل جانے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں سے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی دلیل ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہو گا۔ یہ وہ شخص ہو گا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے۔ بڑے گناہ ایک طرف رکھ دیے جائیں گے۔ اس سے کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا، وہ ہاں میں جواب دے گا۔ انکار کی ہمت نہ ہو گی۔ علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہو گا کہ ابھی تو اس کے بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے۔ اتنے میں اسے کہا جائے گا کہ جا تیرے لیے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی یہ مہربانی دیکھ کر وہ کہے گا کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ظاہر ہو گئے۔‘‘ (مسلم، الایمان، ادنی اھل اجنۃ منزلۃ فیھا، ح: 190)
ترمذی کی ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا ایک اصول بیان کرتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(اتبع السيئة الحسنة تمحها)(البر والصلة، ما جاء فی معاشرۃ الناس، ح: 1987)
’’برائی کے بعد نیکی کرو وہ اسے مٹا دے گی۔‘‘
یعنی اگر گناہ ہو جائے تو اس کے بعد نیکی کیا کرو، نیکی گناہ کو ختم کر دے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے:
﴿ إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ...﴿١١٤﴾... سورة هود
’’بےشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔‘‘
اس اصول کو کئی ایک احادیث میں وضاحت سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا:
"بتاؤ! اگر تم میں سے کسی ایک کے دروازے پر بڑی نہر ہو، وہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گی؟ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے سے اللہ گناہوں اور خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔"
(بخاري، المواقیت، الصلوات الخمس کفارة، ح: 528)، مسلم، المساجد، المشی الی الصلاۃ ۔۔ ح: 667)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة و رمضان الى رمضان مكفرات ما بينهن اذا اجتنب الكبائر)(مسلم، الطھارة، الصلوات الخمس والجمعةالی الجمعة، ح:)
’’پانچوں نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان آئندہ رمضان تک، ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو دُور کرنے والے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب