السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قیامت کے دن انسانوں میں عدل و انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا۔ کیا یہ فیصلہ حیوانات میں بھی ہو گا؟ جیسا کہ سننے میں آیا ہے سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہو گا تو بدلہ دلوایا جائے گا۔ کیا یہ درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یوم الدین کے بے لاگ عدل کا دائرہ کار حیوانات تک بھی پھیل جائے گا، اگر کسی جانور نے بھی دوسری جانور پر ظلم کیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی دادرسی کرے گا، مفسرین نے بعض آیات اور محدثین نے احادیث کی روشنی میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔
سورۃ النباء کی آخری آیت: ﴿يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا ﴿٤٠﴾) (جس دن آدمی اپنے ہاتھوں کی کی ہوئی کمائی دیکھ لے گا اور کافر کہے گا: کاش میں مٹی بن جاتا!) کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"اس دن کافر آرزو کرے گا کہ کاش وہ مٹی ہوتا، پیدا ہی نہ کیا جاتا، وجود میں ہی نہ آتا، اللہ تعالیٰ کے عذابوں کو آنکھ سے دیکھ لے گا۔ اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصف ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ تو ایک معنی تو یہ ہوا کہ دنیا میں ہی مٹی ہو جانے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آارزو کرے گا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ اگر بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلا دلوایا جائے گا، پھر ان سے کہا جائے گا مٹی ہو جاؤ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا۔"
سورۃ الانعام (آیت 38) میں جانوروں کے حشر کو بیان کیا گیا ہے:
﴿وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ وَلا طـٰئِرٍ يَطيرُ بِجَناحَيهِ إِلّا أُمَمٌ أَمثالُكُم ما فَرَّطنا فِى الكِتـٰبِ مِن شَىءٍ ثُمَّ إِلىٰ رَبِّهِم يُحشَرونَ ﴿٣٨﴾... سورةالانعام
’’اور جتنی قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں، ہم نے لوحِ محفو میں کوئی چیز نہیں چھوڑی، پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے۔‘‘
اس آیت سے نیز ایک دوسری آیت ﴿وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ﴿٥﴾ (التکویر: 81/5) سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا قیامت کے دن حشر ہو گا، ان سے کفروشرک اور ایمان کا محاسبہ تو نہیں ہو گا مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر کیا ہو گا اس کا بدلا دلایا جائے گا۔
مظلوم جانوروں کے ظلم کا بدلا دلانے کا تذکرہ احادیث میں بھی ملتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَتُؤَدُّنَّ الحقوق إلى أهلها يوم القيامة، حتى يقاد للشاة الجَلحاء من الشاة القَرناء) (مسلم، البر، تحریم الظلم، ح: 2582)
’’تمہیں روز قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتیٰ کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلا دلوایا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’روز قیامت جانوروں کے حشر پر اس (حدیث) میں دلالت ہے۔ انہیں بھی اسی طرح اٹھایا جائے گا جیسے مکلف مخلوق انسان کو اُٹھایا جائے گا اور جس طرح بچوں، فاتر العقل لوگوں اور ان لوگوں کو جنہیں اسلام کی دعوت نہیں پہنچی ہو گی اٹھایا جائے گا۔ قرآن و سنت کے دلائل اس کی تائید میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ﴿٥﴾(التکویر: 81:5) (اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے) جب شریعت میں جانوروں کے حشر پر الفاظ وارد ہوئے ہیں اور عقل و شریعت کے سامنے انہیں ظاہر پر محمول کرنے میں رکاوٹ نہ ہو تو انہیں لازما ظاہر پر ہی محمول کرنا چاہئے۔ علماء فرماتے ہیں:
روز قیامت حشر اور زندہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بدلہ دینے اور عذاب و ثواب کے لیے ہی ایسا کیا جائے جہاں تک سینگوں والی بکری سے بے سینگ بکری کے قصاص کا معاملہ ہے تو یہ وہ قصاص نہیں جو مکلف مخلوق (مثلا انسان) سے لیا جاتا ہے۔ کیونکہ بکری مکلف (شرعی احکام کی پابند) مخلوق نہیں بلکہ یہ مقابلے کا قصاص ہے۔"
نوٹ: اس حدیث میں انسانوں کے لیے بہت بڑا درسِ عبرت ہے کہ جب غیر مکلف مخلوق جانوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا تو مکلف مخلوق انسان کے ظلم کو کیونکر نظر انداز کیا جائے گا؟ اگر اس نے ظلم سے توبہ کر کے اس کی تلافی نہ کی ہو گی تو اسے یقینا اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب