السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی سے اپنی بات منوانے کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ تجھے قسم لگے! جسے قسم دی جائے اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ نیز کیا ایسی قسم واقع ہو جاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست پر اعتماد کرتے ہوئے اسے قسم دے دے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے بلکہ اس کی قسم کی لاج رکھتے ہوئے اس کی قسم پوری کر دینی چاہئے۔ چنانچہ براء بن عازب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے ہمیں منع کیا تھا، آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کے جواب میں يرحمك الله کہنے، دعوت کرنے والی کی دعوت قبول کرنے، سلام پھیرنے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیوں (کے پہننے) سے، چاندی (کے برتن) میں پینے سے، میثر (زین یا کجاوہ کے اوپر ریشم کا گدا) استعمال کرنے سے اور قسی (اطرافِ مصر میں تیار کیا جانے والا ایک کپڑا جس میں ریشم کے دھاگے بھی استعمال ہوتے تھے) کے استعمال کرنے سے اور ریشم و دیبا اور استبرق پہننے سے منع کیا تھا۔‘‘(بخاري، الاشربة انیة الفضة، ح: 5635، مسلم، اللباس والزینة، تحریم استعمال اناء الذھب والفضة علی الرجال ۔۔، ح: 2066)
قسم دینے والے کی قسم پوری کرتے ہوئے اس کا جائز کام کر دینا سیرتِ نبوی سے بھی ثابت ہے۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو بُلا بھیجا، اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسامہ بن زید، سعد بن عبادہ اور ابی بن کعب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ صاجزادی نے کہلا بھیجا کہ ان کے بچے کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے، آپ تشریف لائیے۔ آپ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو:
(ان لله ما اخذ وما اعطى وكل شىء عنده مسمى فلتصبر و تحتسب)
’’سب اللہ کا ہے جو اُس نے لے لیا اور اُس نے عنایت کیا اور ہر چیز کا اُس کے پاس وقت مقرر ہے، (بیٹی سے کہیے) وہ صبر کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے۔‘‘
مگر وہ قسم دے کر پھر کہلا بھیجتی ہے کہ نہیں آپ ضرور تشریف لائیے! اس وقت آپ اٹھے، ہم لوگ بھی ساتھ اٹھے۔ جب آپ صاجزادی کے گھر پر پہنچے اور وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کو دیا گیا، آپ نے اسے گود میں بٹھا لیا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ حال دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد بن عبادہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا:
(هذه رحمة يضعها الله فى قلوب من يشاء من عباده وانما يرحم الله من عباده الرحماء)(بخاري، الایمان والنذور، قولہ تعالیٰ: (وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ) ، ح: 6655)
’’یہ (رونا) ترس کی وجہ سے ہے اور اللہ اپنے جس بندے کے دل میں چاہتا ہے رحم ڈالتا ہے۔ اللہ اپنے اُن بندوں پر رحم کرے گا جو (دوسروں پر) رحم کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور فرمانِ پیغمبر ہے:
(ألا أدلكم على أهل الجنة كل ضعيف متضعف لو أقسم على الله لأبره وأهل النار كل جواظ عتل مستكبر)(بخاری، الایمان والنذور، قولہ تعالیٰ: (وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ) ح: 6656)
’’میں تمہیں بتاؤں کہ جنتی کون لوگ ہیں؟ ہر ایک غریب ناتواں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ (اس کی قسم کی لاج رکھتے ہوئے) اسے سچا کر دے۔ (یعنی اس کی قسم پوری کر دے۔) اور جہنمی کون لوگ ہیں؟ ہر ایک لڑاکا، مغرور اور فسادی۔‘‘
مگر واضح رہے کہ قسم دینے والے کی قسم کو پورا کرنا اچھے اخلاق کا ایک مظہر ہے ورنہ کسی کی قسم کو پورا کرنا کوئی فرض و واجب نہیں ہے اور نہ اس طرح قسم دینے سے قسم منعقد ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول مجھ سے بیان کیجیے کہ میں نے خواب کی تعبیر دینے میں کیا غلطی کی ہے؟ آپ نے فرمایا:
(لا تقسم)(بخاري، الایمان والنذور، قوله تعالیٰ: (وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ)، تعلیقا)
’’قسم مت کھاؤ!‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قسم دینے سے قسم منعقد نہیں ہوتی۔ اگر اس طرح قسم منعقد ہو جاتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان کرتے کہ ابوبکر نے تعبیر میں فلاں فلاں غلطی کی ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابرار القسم یا ابرار المقسم کے الفاظ سے قسم کو سچا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب