السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی آدمی کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھانا درست ہے؟ یعنی ایک آدمی یوں کہے کہ فلاں کے رب کی قسم! یا کسی اور چیز کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب قسم اللہ کے نام کی اٹھائی جا رہی ہو تو جائز ہے کہ کسی آدمی کا نام لے کر کہا جائے کہ فلاں آدمی کے رب کی قسم۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
میرے چچا انس بن نضر بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے، اس لیے انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین سے لڑی تھی لیکن اگر اب اللہ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں! پھر جب اُحد کی لڑائی کا موقع آیا اور (بہت سے) مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا: اللہ! جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ (مشرکین کی طرف) آگے بڑھے تو سعد بن معاذ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر نے کہا: سعد بن معاذ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم! میں جنت کی خوشبو اُحد کے پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد نے کہا: اللہ کے رسول! جو اُنہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس نے بیان کیا کہ اس کے بعد انس بن نضر کو جب ہم نے پایا تو تلوار، نیزے اور تیر کے تقریبا اسی زخم ان کے جسم پر تھے۔ وہ شہید ہو چکے تھے، مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے اور کوئی شخص انہیں پہچان نہ سکا تھا، صرف ان کی بہن ان کی انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھی۔ انس نے بیان کیا: ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی:
﴿مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عـٰهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ...﴿٢٣﴾... سورة الاحزاب
’’مومنوں میں سے بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو اُنہوں نے اللہ سے کیا تھا ۔‘‘
انہوں نے بیان کیا کہ انس بن نضر کی ایک بہن رُبیع نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑ دیے تھے اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا۔ انس بن نضر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس ہستی کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے (قصاص میں) ان کے دانت توڑے نہ جائیں گے۔ چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہو گیا اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا، اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان من عباد الله من لو اقسم على الله لابره)(بخاري، الجھاد، قول اللہ تعالیٰ: (مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ ۔۔۔)ح: 2805، 2806)
’’اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ اپنے ایک خالو 'حرام' کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے کعبہ کے رب کی قسم کھائی۔ وہ بیان فرماتے ہیں:
کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ چند آدمی بھیج دیجیے جو ہمیں قرآن اور حدیث سکھلا دیں۔آپ نے ان کے ساتھ ستر انصار کو بھیج دیا جنہیں قراء کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں 'حرام' بھی تھے۔ وہ لوگ قرآن پڑھا کرتے تھے اور رات کو قرآن پڑھتے پڑھاتے جبکہ دن کو پانی لا کر مسجد میں رکھتے اور لکڑیاں اکٹھی کرتے اور فروخت کر کے اصحابِ صفہ اور فقرء کے لیے کھانا خریدتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اُن کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ انہوں نے راستہ میں ان کا مقابلہ کیا اور انہیں قتل کر دیا۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچنے سے پہلے انہوں نے (موت کے وقت) کہا: یا اللہ! ہمارے نبی کو یہ (اطلاع) پہنچا دے کہ ہم تجھ سے مل گئے ہیں نیز ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہے۔ ایک شخص کافروں میں سے'حرام' کے پاس آیا اور انہیں ایسا برچھا مارا کہ پار ہو گیا۔ حرام نے کہا:
"فزت ورب الكعبة"
’’ربِ کعبہ کی قسم! میں مراد کو پہنچ گیا۔‘‘
اللہ کے رسول نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
(إن إخوانكم قد قتلوا وإنهم قالوا اللهم بلغ عنا نبينا أنا قد لقيناك فرضينا عنك ورضيت عنا)(مسلم، الامارة، ثبوت الجنة للشھید، ح: 677)
’’تمہارے بھائی قتل کیے گئے ہیں اور انہوں نے یہ کہا: یا اللہ! ہماارے نبی کو ہماری طرف سے یہ (اطلاع) پہنچا دے کہ ہم تجھ سے مل گئے ہیں نیز ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہے۔‘‘
یہ خبر جبریل علیہ السلام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی اور آپ نے صحابہ کو خبر دی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب