سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) شرک، کفر اور نفاق کی نجاست کی نوعیت؟

  • 23395
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1896

سوال

(25) شرک، کفر اور نفاق کی نجاست کی نوعیت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرک، کفر اور نفاق کی نجاست کس نوعیت کی ہے؟ اگر کسی مشرک، کافر اور منافق سے ہاتھ لگ جائے تو کیا ہاتھ ناپاک ہو جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راجح موقف یہ ہے کہ شرک و کفر اور نفاق کی نجاست حسی نہیں بلکہ حکمی اور معنوی ہے۔ مشرکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَبُوا المَسجِدَ الحَرامَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا ...﴿٢٨﴾... سورة التوبة

’’ایمان والو! مشرک تو پلید ہیں تو وہ اس برس (9ھ) کے بعد مسجد حراام (خانہ کعبہ) کے پاس نہ آئیں۔‘‘

منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّهُم رِجسٌ ...﴿٩٥﴾... سورة التوبة

’’یقینا وہ ناپاک ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَتهُم رِجسًا إِلىٰ رِجسِهِم وَماتوا وَهُم كـٰفِرونَ ﴿١٢٥﴾... سورةالتوبة

’’اور جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘

منافقین نمازیں پڑھتے اور بہت سے دیگر اچھے کام بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر کرتے مگر مسلمان اپنا جسم ان کے ساتھ لگ جانے پر دھوتے نہیں تھے۔ کفار کے ساتھ بھی لین دین اور دیگر معاملات کر لیتے تھے۔

ایک آیت میں بتوں کو ناپاک قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اُن سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَاجتَنِبُوا الرِّجسَ مِنَ الأَوثـٰنِ ...﴿٣٠﴾... سورة الحج

’’بتوں کی پلیدی سے بچو۔‘‘

جبکہ یہ بت لکڑی، پتھر اور مٹی وغیرہ کے بھی ہو سکتے ہیں، کوئی قبر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اگر کسی قبر کی پوجا کی جائے تو اس کی حیثیت بت کی طرح ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔ (مسند احمد 246/2، مسند حمیدی، ح: 1025)

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾... سورة المائدة

’’ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پنسے ناپاک کام، اعمالِ شیطان سے ہیں ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

اس آیت میں شراب، جوا، بتوں اور پانسوں کی جس نجاست کا تذکرہ ہے ظاہر ہے کہ وہ حکمی نجاست ہے نہ کہ حسی۔

(إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبة 9/28)) کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

یہ آیت مشرکوں کے نجس ہونے کی بھی دلیل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن نجس نہیں ہوتا، باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ (ان کا جسم) نجس نہیں۔ اس لیے کہ اللہ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہریہ کہتے ہیں مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہیں۔ (ابن حزم کا بھی یہی قول ہے۔ محلیٰ 137/1) حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو (مسلمان) ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔ (ابن کثیر 372/3)

یہ قول امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں ہے، اسے ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں یوں بیان کیا ہے: (حدثنا ابن وكيع قال ثنا ابن فضيل عن اشعث عن الحسن ۔۔) ۔۔ (853/5) ابن وکیع اور اشعث بن سوار دونوں ضعیف ہیں۔ (محمد ارشد کمال)

نوٹ: جس حدیث میں ہے کہ مومن نجس نہیں ہوتا۔ وہ بخاری میں ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملے جبکہ میں جنبی تھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں آپ کے ساتھ چلنے لگا حتی کہ آپ بیٹھ گئے تو میں کھسک کر گھر آیا۔ غسل کر کے آپ کے پاس آیا جبکہ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے دریافت کیا: (اين كنت) ’’آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ میں نے آپ کو صورت حال بتائی تو آپ نے فرمایا:

(سبحان الله! يا ابا هريرة! ان المومن لا ينجس)(الغسل، الجنب یخرج و یمشی فی السوق وغیرہ، ح: 285، عرق الجنب وان المسلم لا ینجس، ح: 283)

’’سبحان اللہ! ابوہریرہ! مومن نجس نہیں ہوتا۔‘‘

کفار و مشرکین وغیرہ کی نجاست کا حکمی اور معنوی ہونا درج ذیل دلائل سے بھی ثابت ہے:

1۔ قرآن مجید میں مشرک والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِن جـٰهَداكَ عَلىٰ أَن تُشرِكَ بى ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ فَلا تُطِعهُما وَصاحِبهُما فِى الدُّنيا مَعروفًا ...﴿١٥﴾... سورة لقمان

’’اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا دستور کے مطابق ساتھ دینا۔‘‘

2۔ شریعتِ اسلامی میں اہل کتاب کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے شادی کرنا حلال قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ...﴿٥﴾... سورة المائدة

’’آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا طعام (ذبیحہ) بھی تم پر حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لیے حلال ہے۔ اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاکدامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ تم ان کا مہر دے دو۔‘‘

3۔ جب ثقیف کے وفد کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ٹھہرایا تو بعض لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ انہیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں جبکہ یہ تو پلید ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ليس على الارض من انجاس القوم شىء انما انجاس القوم على انفسهم)

"ان لوگوں کا نجس ہونا زمین پر کچھ موثر نہیں بلکہ ان کا پلید ہونا خود انہیں پر ہے۔‘‘

4۔ نجران کے عیسائی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاکرات کے لیے آئے تو انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا تھا۔

5۔ یمامہ کے رئیس ثُمامہ بن اُثال جب حالت شرک میں گرفتار ہوئے تو انہیں مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھا گیا تھا۔

اگر ان کے مسجد میں آنے سے مسجد گندی ہو جاتی تو انہیں مسجد میں داخلے کی اجازت نہ ملتی یا ان کے مسجد میں داخلے کے بعد مسجد نبوی کو دھویا جاتا نیز وہ لوگ بھی بھی ضرور اپنے ہاتھ دھویا کرتے جو مشرک قیدیوں کو گرفتار یا انہیں پابند سلاسل کرنے پر معمور تھے۔

6۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:

(لما فتحت خيبر اهديت للنبى صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ۔۔۔ ((هل جعلتم فى هذه الشاة سما؟)) قالوا: نعم۔۔)(بخاري، الجزیة، اذا غدر المشرکون بالمسلمین ھل یعفی عنھم؟ ح: 3169، 4249، 5777)

’’جب خیبر فتح ہوا تو (یہود کی طرف سے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ۔۔ کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔‘‘

یہ زہر آلود گوشت آپ نے اور ایک صحابی بشر بن براء رضی اللہ عنہ نے تناول کر لیا تھا۔ صحابی کی اسی زہر سے موت واقع ہو گئی تھی۔

7۔ ایک مشرکہ کے پاس پانی کے مشکیزے تھے جن میں موجود پانی کو ایک برتن میں انڈیل دیا گیا۔ پھر آپ نے لوگوں میں منادی کر دی:

(((اسقوا واستقوا)) فسقى من سقى و استقى من شاء وكان اخر ذالك ان اعطى الذى اصابته الجنابة اناء من ماء، قال ((اذهب فافرغ عليك)))(بخاري، التیمم، الصعید الطیب وضوء المسلم یکفیہ من الماء، ح: 344)

’’خود بھی سیر ہو کر پئیں اور (جانوروں وغیرہ کو بھی) پلائیں۔" تو جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا، آخر میں اس شخص کو ایک برتن میں پانی دے دیا گیا جسے غسل کی حاجت تھی، آپ نے اس سے فرمایا: جاؤ اس پانی سے غسل کر لو۔‘‘

8۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

(كنا نغزوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنصيب من اٰنية المشركين واسقيتهم فنستمتع بها فلا يعيب ذلك عليهم)(ابوداؤد، الاطعمة، فی الاکل فی انیة اھل الکتاب، ح: 3838، مسند احمد 379/3)

’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد پر جاتے تو ہم مشرکوں سے برتن اور مشکیزے لے کر استعمال کر لیتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اسے معیوب نہ سمجھتے تھے۔‘‘

البتہ بعض احادیث سے بادی النظر میں اشکال پیدا ہوتا ہے۔ ان احادیث میں ایک روایت ابو ثعلبہ خُشنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اوران کے برتنوں میں کھاتے ہیں، اور ہم شکار والی زمین میں رہتے ہیں، جہاں میں اپنے تیر سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے ہوئے کتے سے شکار کرتا ہوں اور ایسے کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے تو اس میں سے کیا چیز ہمارے لیے جائز ہے؟ تو آپ نے فرمایا:

(أما ما ذكرت أنكم بأرض قوم أهل كتاب تأكلون في آنيتهم فإن وجدتم غير آنيتهم فلا تأكلوا فيها . وإن لم تجدوا فاغسلوها وكلوا فيها)(بخاري، الذبئح والصید، ماجاء فی التصید، ح: 5488، مسلم، الصید والذبائح، الصید بالکلاب المعلمة، ح: 1930)

’’آپ نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو اور ان کے برتنوں میں بھی کھاتے ہو تو اگر تمہیں ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن مل جائیں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، لیکن ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں دھو کر ان میں کھا لو۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(انقوها غسلا و اطبخوا فيها) (ترمذي، السیر، ما جاء فی الانتفاع بانیة المشرکین، ح: 1560)

’’انہیں دھو کر صاف کر لو اور پھر ان میں پکا لو۔‘‘

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے تھے اور برتنوں میں شراب پیتے تھے۔ ان برتنوں کے حرام چیزوں سے آلودہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر برتنوں کے ہوتے ہوئے ان برتنوں میں کھانے پینے کی اجازت نہ دی اور اگر دیگر برتن دستیاب نہ ہوں تو کفار و مشرکین کے برتنوں کو دھو کر استعمال کر لینے کی اجازت ہے۔ ابو ثعلبہ خُشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم اہل کتاب کی ہمسائیگی میں رہتے ہیں۔ وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے اور برتنوں میں شراب پیتے ہیں۔ (کیا ہم ان کے برتن استعمال کر سکتے ہیں؟) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان وجدتم غيرها فكلوا فيها واشربوا وان لم تجدوا غيرها فارحضوها بالماء وكلوا واشربوا)(ابوداؤد، الاطمعة، فی استعمال انیة اھل الکتاب، ح: 3839)

’’اگر تمہیں اور برتن مل جائیں تو ان میں کھاؤ پیو، اور اگر ان کے سوا اور برتن نہ ملیں تو انہیں پانی سے اچھی طرح دھو کر ان میں کھا پی لیا کرو۔‘‘

تو معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین وغیرہ دیگر گندگیوں پیشاب وغیرہ کی طرح پلید نہیں ہیں بلکہ ان کی نجاست حکمی اور معنوی ہے۔

شارح بلوغ المرام شیخ امیر صنعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

حق بات یہی ہے کہ تمام اعیان (ذوات و اجسام وغیرہ) بنیادی طور پر پاک ہوتے ہیں اور ان کے حرام ہونے کی وجہ سے ان کا نجس ہونا ضروری نہیں۔ مثلا بھنگ حرام ہے لیکن پاک ہے، نشہ آور اشیاء اور زہرِ قاتل کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں تااہم ہر نجس شے حرام ہے مگر ہر حرام نجس نہیں ۔۔ جیسا کہ ریشم اور سونا پہننا (مردوں کے لیے) حرام ہے لیکن بالاتفاق پاک ہے۔ (سبل السلام 76/1)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

شرک اور خرافات،صفحہ:102

محدث فتویٰ

تبصرے