السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سیالکوٹ کے ایک مولوی نے اپنی ایک کتاب میں شاہ اسمعیل شہید کی کتاب تقویۃ الایمان کے عقیدہ توحید سے متعلق بعض مندرجات پر اعتراضات کئے ہیں۔ اہلِ توحید کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے ایک عتراض اس نے’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کو سجدہ کرنے کی ممانعت‘‘ کے تحت یوں پیش کیا: عقیدہ: سجدہ نہ کسی زندہ کو کیجیے، نہ کسی مردہ کو۔ نہ کسی قبر کو کیجیے، نہ کسی تھان کو۔ کیونکہ جو زندہ ہے، سو ایک دن مرنے والا ہے۔ (تقویۃ الایمان، ص: 61)
اسماعیل دہلوی کی اس عبارت کا یہ جملہ کہ سجدہ نہ کسی زندہ کو کیجیے، غور طلب ہے۔ اسماعیل دہلوی کے قانون کے مطابق اس میں خدا تعالیٰ کو سجدہ کرنے سے ممانعت ہے۔ کیونکہ ہمارا خدا تعالیٰ تو زندہ ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: (اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ) وہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے۔ اسماعیل دہلوی یہ درس دے رہے ہیں کہ زندہ کو سجدہ نہ کیجیے اور ساتھ ہی آخر میں یہ مفروضہ درج کر دیا کہ کیونکر جو زندہ ہے، سو ایک دن مرنے والا ہے۔ حالانکہ خدا تعالیٰ الْحَيُّ الْقَيُّومُ زندہ بھی ہے اور نہ مرنے والا ہے۔ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔ (ص: 5-6)
کیا شاہ اسماعیل شہید کا یہی عقیدہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ مولوی موصوف نے دعویٰ کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ استدلال علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ یہ استدلال تاویل الاحکام بما لا یرضی بہ قائلہ کا مصداق ہے۔ متعصب مولوی نے سیاق و سباق سے پہلوتہی کر کے مزعومہ مطلب نکالنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ "ابوداؤد" کی جس حدیث کی تشریح میں سوال میں درج کردہ الفاظ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے لکھے ہیں، وہ حدیث بیان ہی اس مقصد کے لیے کی گئی ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی زندہ یا مردہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ دیگر بادشاہوں کو اُن کی رعایا سجدہ کرتی تھی، تو ایک صحابی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، کہ آپ زیادہ حق رکھتے ہیں، کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(أرأيت لو مررت بقبرى أكنت تسجد له؟ قال: قلت: لا , قال: فلا تفعلوا) (ابوداؤد، النکاح، فی حق الزوج علی المرة، ح: 2140)
’’بھلا بتا تو سہی کہ اگر تو میری قبر پر گزرے تو کیا اس پر سجدہ کرے گا؟ میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام بھی نہ کرو۔‘‘
اس کی تشریح میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’سجدہ کے لائق تو وہی پاک ذات ہے، جو لازوال ہے، معلوم ہوا کہ سجدہ نہ زندہ کو رواس ہے اور نہ مردہ کو اور نہ کسی قبر کو روا ہے اور نہ کسی تھان کو ۔ کیونکہ زندہ ایک دن مرنے والا ہے اور مرا ہوا بھی کبھی زندہ تھا اور بشر تھا پھر مر کر الہٰ نہیں ہوا بندہ ہی ہے۔‘‘ (تقویۃ الایمان، ص: 155۔ ط: مؤسۃ الحرمین الخیریۃ، سعودی عرب)
سجدہ کے لائق وہی پاک ذات ہے جو لازوال ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے نزدیک زندہ سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو زندہ مخلوقات ہیں وہ مراد ہیں، انہیں سجدہ کرنا جائز نہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے، کہ اس حدیث (لا تفعلوا) اور اس سے پہلے والی حدیث (اعبدوا ربكم و اكرموا اخاكم) (مسند احمد 76/6) پر مولانا اسماعیل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں باب کے جلی حروف میں یہ الفاظ موجود ہیں:
اللہ کو سجدہ اور پیغمبر علیہ السلام کی تعظیم (ص: 153)
کیا یہ وہی عقیدہ نہیں جس کا دعویٰ مولوی صاحب نے کیا ہے کہ ’’اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔‘‘
جب عقیدہ ایک ہے تو کتاب کے صفحات سیاہ کرنے کا مقصد؟
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیالوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کا سارا زور ہی اس بات پر صرف ہوتا ہے ، کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو کرنا چاہئے، دیکھیے شاہ صاحب کتنی وضاحت سے اپنا عقیدہ بیان کرتے ہیں۔ تقویۃ الایمان میں ایک عنوان یہ ہے:
’’سجدہ صرف اللہ کے لیے۔‘‘
اس عنوان کے تحت ایک آیت پیش کرنے کے بعد اس کی تشریح پیش کرتے ہیں، ملاحظہ کریں:
﴿ لا تَسجُدوا لِلشَّمسِ وَلا لِلقَمَرِ وَاسجُدوا لِلَّهِ الَّذى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُم إِيّاهُ تَعبُدونَ ﴿٣٧﴾... سورة فصلت
’’سورج کو اور چاند کو سجدہ نہ کرو۔ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں سجدہ خالق ہی کا حق ہے، لہذا کسی مخلوق کو سجدہ نہ کیا جائے، خواہ چاند سورج ہوں، یا نبی ولی ہوں، یا جن اور فرشتے ہوں۔ اگر کوئی کہے کہ پہلے دینوں میں مخلوق کو بھی سجدہ روا تھا مثلا فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو اور یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا اس لیے اگر ہم بھی کسی بزرگ کو تعظیمی سجدہ کریں تو کیا حرج ہے۔ یاد رکھو اس سے شرک ثابت ہو جاتا ہے، ایمان نکل جاتا ہے۔ آدم علیہ السلام کی شریعت میں بہنوں سے نکاح کرنا جائز تھا اسے دلیل سمجھ کر یہ لوگ اگر بہنوں سے نکاح کر لیں تو کیا حرج ہے، مگر سخت حرج ہے کیونکہ یہاں بہنیں محرمات ابدیہ میں داخل ہیں جو کسی صورت سے حلال ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کر دینا چاہئے۔ اللہ کے فرمان کو بلا چوں و چراں دل و جان سے مان لینا چاہئے، خوامخواہ کی حجت نہیں پیش کرنی چاہئے، کہ پہلے لوگوں کے لیے تو یہ حکم نہ تھا ہم پر کیوں مقرر کیا گیا۔ ایسی باتوں سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ اس مضمون کو مثال سے سمجھو کہ ایک بادشاہ کے یہاں ایک مدت تک ایک قانون پر عمل ہوتا رہا پھر قانون بنانے والوں نے اسے منسوخ کر کے اس کی جگہ اور قانون بنا دیا، اب اس نئے قانون پر عمل ضروری ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہنے لگے کہ ہم تو پہلے ہی قانون کو مانیں گے، نئے قانون کو نہیں مانتے وہ باغی ہے اور باغی کی سزا جیل خانہ ہے، اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ کے باغیوں کے لیے جہنم ہے۔ (ص: 109-110)
یہاں پر شاہ صاحب نے غیراللہ کو سجدہ کرنے کے تمام چو ر دروازے بند کر دیے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب