السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل عام رواج چل نکلا ہے کہ جب بھی کوئی عرس وغیرہ ہوتا ہے یا کوئی افسر کسی خاص مہم پر ہوتا ہے تو کسی بزرگ کی قبر پر چادر چڑھاتا ہے اور جتنا بڑا مزار ہوتا ہے اسی حساب سے اس پر چادریں چڑھانے کا زور ہوتا ہے۔ آیا شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر چادر چڑھانے کی نذر مانی گئی ہو تو اسے پورا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ غیراللہ کے لیے نذر ماننا حرام ہے۔ چادر پوش قبروں سے تذکیرِ آخرت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ نیز یہ مال و دولت کا ضیاع بھی ہے۔ قبر پر چادر چڑھانے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تو قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی قبر پر چادر نہیں چڑھائی۔ اگر یہ کوئی کرنے کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم اس "کارِخیر" سے محروم نہ رہتے۔مزید برآں روئے زمین کی قبروں سے افضل قبر (قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم) پر بھی کبھی کسی صحابی نے غلاف نہیں چڑھایا کسی دوسری قبر کی، خواہ صاحبِ قبر کوئی بزرگ ہی کیوں نہ ہو، کیا حیثیت ہے؟ لہذا اس غیر شرعی حرکت سے باز آ جانا چاہئے۔
ملحوظہ: آجکل قبروں پر ایسے غلاف اور چادریں چڑھائی جاتی ہیں جن پر قرآنی آیات کندہ ہوتی ہیں جس سے آیات کی بےادبی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ اُن پر کتے پیشاب کر جاتے ہیں۔ بعض قبرستانوں میں تو یہ عبارت "قبروں پر قرآنی آیات نہ لکھیں جانور پیشاب کرتے ہیں" بڑے جلی حروف سے لکھی ہوتی ہے لیکن بے ادب ہیں کہ باز نہیں آتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب